تجھے تو اب اے ما وَرائے تصور
تصور میں لانے کو جی چاہتا ہے
(عارفیؒ )
حق تعالیٰ کی حمد وثناء کامقصد یہ ہونا چاہیے کہ حق تعالیٰ کی محبت عقلی بڑھ جائے۔ حمد وثناء ، ذکر اللہ اور اتباع سنت سے جو محبت بڑھتی ہے وہ محبت عقلی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی محبت عقلی کا شدید بلکہ اشد ہونا ہی شرعاًمطلوب ہے ۔ حق تعالیٰ نے ہم سے اسی محبت عقلی کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے حاصل کرنے کو فرض عین کر دیا ہے۔ اس کے بر خلاف محبت طبعی غیر اختیاری ہے ۔ محبت طبعی میں دل میں ایک کیفیت جذب و کشش کی پیدا ہو جا تی ہے ۔ محبت کی یہ قسم مطلوب نہیں۔عقلی محبت کے ساتھ یہ بھی عطاء ہو جائے تونعمت ہے، محمود ہے مقصود نہیں۔ محبت عقلی کے ساتھ محبت طبعی بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتی ہے گو محسوس نہ ہو۔ محبت عقلی جس کا بڑھانا مطلوب و مقصود ہے اس کا جذبات سے تعلق نہیں بلکہ عقل و فہم سے ہے کہ عقل اس بات کو قبول کر لے کہ بہر حال حق تعالیٰ کا حکم ہی قابل ترجیح ہے۔ چاہے اپنے نفس کا تقاضہ ہو یا رشتہ دار، متعلقین، دوست احباب کا خیال ہو یا اپنی عزت و وقعت بڑھانے کا داعیہ ہو بہر صورت ایسے سب تقاضوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو معلوم کرکے اس کو ترجیح دی جائے۔ یہ محبت عقلی جب مطلوبہ درجہ میں حاصل ہو جاتی ہے تو حسب ذیل دو علامات سے ظاہر ہوتی ہے :
۱۔بندہ ہر کام میں اتباع سنت کو تمام مصلحتوں پر اور تقاضائے نفس پر ترجیح دینے لگتا ہے ۔
۲۔وہ حق تعالیٰ کے حکم کو بجا لانے میں لوگوں کی ملامت کی پرو اہ نہیں کرتا۔
حق تعالیٰ کی حمد حق تعالیٰ کی محبت عقلی کے بڑھانے میں مفید و مددگار ہو جائے تو بڑی نعمت ہے ۔ اسی لئے اہل اللہ کے دل سے نکلے ہوئے اشعار حمد جو کلام پاک اور احادیث کے مطابق ہوں ان کو پڑھا اور سنا جاتا ہے۔چونکہ حق تعالیٰ ماورائے تصور ہیں یعنی ہر اُس تصور سے پاک ہیں جو بندہ کے ذہن میں آئے۔اس لئے کلام پاک میں حق تعالیٰ نے اپنی معرفت کرانے کے لئے خود ہی اپنی صفات قدسیہ بیان کی ہیں۔ بعض ایسی آیات یہاں نقل کی جاتی ہیں ۔
۱) اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَالنَّوَىٰۖ يُخۡرِجُ ٱلۡحَىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَمُخۡرِجُ الۡمَيِّتِ مِنَ الۡحَىِّ ذَٲلِكُمُ اللَّهُۖ فَاَنَّىٰ تُؤۡفَكُونَ﴿۹۵﴾ فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ وَجَعَلَ الَّيۡلَ سَكَنً۬ا وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ حُسۡبَانً۬اۚ ذَٲلِكَ تَقۡدِيرُ الۡعَزِيزِ الۡعَلِيمِ﴿۹۶﴾ وَهُوَ الَّذِى جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَہۡتَدُوا بِھَا فِى ظُلُمَـٰتِ الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿۹۷﴾ وَهُوَ الَّذِىٓ اَنشَاَكُم مِّن نَّفۡسٍ وَاحِدَةٍفَمُسۡتَقَرٌّ وَمُسۡتَوۡدَعٌ۬ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاَيٰتِ لِقَوۡمٍ يَفۡقَهُونَ ﴿۹۸﴾وَهُوَ الَّذِىٓ اَنزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجۡنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَىۡءٍ فَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهُ خَضِرً۬ا نُّخۡرِجُ مِنۡهُ حَبًّا مُّتَرَاڪِبً۬اوَمِنَ النَّخۡلِ مِن طَلۡعِهَا قِنۡوَانٌ دَانِيَةٌوَجَنّٰتٍ مِّنۡ اَعۡنَابٍ وَّالزَّيۡتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشۡتَبِهً۬ا وَّغَيۡرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿۹۹﴾ (سورة الانعام)
إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٩٥﴾ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٩٦﴾ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٩٧﴾ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ ﴿٩٨﴾ وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗانظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
بیشک الله تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو۔وہ جاندار کو بےجان سے نکال لاتا ہے اور وہ بے جان کو جاندار سے نکالنے والا ہے یہ الله ہی ہے (جس کی ایسی قدرت ہے)سو تم کہاں اُلٹے چلے جارہے ہو۔(الله تعالیٰ) صبح کا نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو راحت کی چیز بنائی ہے اور سورج اور چاند (کی رفتار) کو حساب سے رکھا ہے۔یہ ٹھیرائی ہوئی بات ہے ایسی ذات کی جوکہ قادر ہے بڑے علم والا ہے۔اور وہ (الله)ایسا ہےجس نے تمھارے (فائدہ کے) لیے ستاروں کو پیدا کیا تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں خشکی میں بھی اور دریا میں بھی رستہ معلوم کرسکو۔اور وہ (الله) ایسا ہے جس نے تم (سب) کو(اصل میں) ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے رہنے کی۔بیشک ہم نے یہ دلائل (بھی توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کردئیے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔وہ )الله ( ایسا ہے جس نے آسمان (کی طرف) سے پانی برسایا۔پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات کو نکالاپھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گپھے میں سے خوشے ہیں جو (مارے بوجھ کے)نیچے کو لٹکے جاتے ہیں اور (اسی پانی سے ہم نے) انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار (کے درخت پیدا کیے)جوکہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جُلتے نہیں ہوتے (ذرا) ہر ایک کے پھل کو تو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور (پھر) اسکے پکنے کو دیکھو ۔ ان میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان والے ہیں۔
۲) اللَّـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٦٤﴾ ( سورة المؤمن)
اﷲ ہی ہے جس نے زمین کو (مخلوق کا) قرارگاہ بنایا اور آسمان کو (مثل) چھت (کے) بنایا اور تمہارا نقشہ بنایا سو عمدہ نقشہ بنایا اور تم کو عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دیں۔ (پس) یہ اﷲ ہے جو تمہارا رب ہے۔ سو بڑا عالیشان ہے اﷲ جو سارے جہان کا پروردگار ہے۔
۳)أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ﴿٦٢﴾(سورة النمل)
یا وہ ذات جو بیقرار آدمی کی سنتا ہے جب وہ اس کو پکارتا ہے اور (اس کی ) مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم کو زمین میں صاحب تصرّف بناتا ہے (یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اﷲ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے (مگر ) تم لوگ بہت ہی کم یاد رکھتے ہو۔
Jis gunah par quran aur hadis me,
1) dunya me koi saja mukkarar na ho
2) jispar jahannam ki saja ka jikr na ho
3) jispar lanat ka jikr na ho,
4) Jo bagair toba ke dusri nekiyon ki wajah se bhi maaf ho jata hai
Aise gunah ko Sagira gunah kaha jata hai...
Magar sagira gunah ki misal chote saap jaisi hai, koi usse is liye la parwahi nahi karta ke wo chota hai,
Doosara masla is kitab me ye hai ke "Sagira gunah ko bar bar karne se woh Kabira ban jata hai" aur phir bagair toba ke maaf nahi hota....
Allahu aalamu haqiqatul haal...
please answer this question
[5:40 PM, 9/22/2019]
[8:09 AM, 9/22/2019]
ایک بزرگ عالم کا تاثر:الحمد للہ حضرت آپ نے بہت آہم موضوع پر بیان فرمایا ہے یہ اس دور کاسب سے بڑا وبائی مرض ہے اس پر اگر مزید بھی بات چیت ہوئی تو ہم متعلقین کے لیے بہت فائدہ ہو گا جبکہ اس کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھاجاتا ہے بہت سے دیندار لوگ فیس بک کو کھلے عام استعمال کرتے ہیں حالانکہ شراب کی طرح یہ اسمارٹ فون ام الخبائث ہےاچھائ تواسکےاندرہےہی نہیں کسی عالم کی تقریر چل رہی ہے درمیان میں بیہودہ اشتہار چلاتےہیں اللہ تعالیٰ اسکی تباہی سےپوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائیں
[8:08 AM, 9/22/2019]
ایک عالمہ کا تاثر:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ماشاءاللہ عجیب بیان ہے،بری صحبت کے معانی اس انداز میں پہلی مرتبہ سنے ہیں۔الحمدللہ آنکھیں کھول دیں،اس بیان کا ایک ایک لفظ آئینہ ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ والدین خود ہی بچے کے لئے بری صحبت ہیں،جب ہم بچوں کے سامنے ناجائز کام کرتے ہیں تو بچے سب سے پہلے اسی کو جواز کی دلیل بناتے ہیں اسی لئے جب بچوں کو روکا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ آپ بھی تو کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ ہمیں سچائی کے ساتھ دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بری صحبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔