ایں قدر دانم کہ رب ذو الجلال آفریدت منتہائے ہر کمال
(اتنا جانتا ہوں کہ رب ذو الجلال نے آپ کو ہر کمال کے انتہائی درجہ کے ساتھ پیدا کیا تھا)
حق تعالیٰ جل شانہ نے سردارِ دوعالم رسول اکرم احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کو دنیا کے لئے ایک مثالی نمونہ بناکر بھیجا تا کہ امتی ان کا اتباع کرے۔جب اصل مقصود حضور ﷺ کی اتباع ہے تو نعت اس اتباع میں اس طرح مفید ہو سکتی ہے کہ اس سے حضور ﷺ کے کمالات و صفات کا علم ہو جائےاور معرفت بڑھ جائے اور یہ معرفت ایسی محبت عقلی کا سبب بن جائےجس کا نتیجہ اتباع ہو۔حضور ﷺ کی محبت بڑھانے کا صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ اتباع سنت کا پورا اہتمام ہو اور درود شریف کثرت سے پڑھا جائے یعنی درود شریف کا ورد معنیٰ سمجھ کر ہو ۔ کیونکہ درود بھیجنے کا حکم کلام پاک میں ہے۔ اور شاعروں کی نعتیں پڑھنے یا سننے کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے۔ بغیر اتباع سنت اور کثرت درود شریف کے محض نعتیں پڑھنے سننے سے حضور ﷺ کی وہ محبت عقلی جو شرعاً فرض و واجب ہے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور شاعروں کی نعتیں اکثر افراط و تفریط یا بے ادبی تک پہنچ جاتی ہیں اور اگر ایسانہ بھی ہو تو ہمیشہ ناقص رہیں گی۔ بقول عارفی ؒ ایسی نعت جو حضور ﷺ کی جلالت شان اور کمالات نبوت کا بیان ہوانسان کی صلاحیت سے باہر ہے۔
محمد حامد حمد خدا بس خدا مدح آفرین مصطفیٰ بس
حق تعالیٰ ہی ان کا صحیح تعارف خود اپنے کلامِ مبین میں فرماتے ہیں۔ یہاں ایسی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
۱) لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُولٌ مِّن اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالمُؤمِنینَ رَءُ وفٌ رَّحِیْمٌ ﴿ ۱۲۸﴾(سورۂ توبہ)
(اے لوگو) تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے۔ جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں (یہ حالت تو سب کے ساتھ ہے) پھر بالخصوص ایمانداروں کے ساتھ تو بڑے شفیق اور مہربان ہیں۔
۲)يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ﴿٤٦﴾ (سورة الاحزاب)
اور آپ (مومنین کو) بشارت دینے والے ہیں اور (کفار کو) ڈرانے والے ہیں۔ اور(سب کو) اﷲ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے اور ایک روشن چراغ ہیں۔
۳)هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾ (سورۃِ الجمعہ )
وہی ہے جس نے (عرب کے) ناخواندہ لوگوں میں انہیں (کی قوم) میں سے ایک پیغمبر بھیجا۔ جو ان کو اﷲ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو (عقائد باطلہ واخلاق ذمیمہ سے) پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور دانشمندی کی باتیں سکھلاتے ہیں اور یہ لوگ (آپ کی بعثت کے) پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
یا رسول اﷲ بر تو صبح و شام بیشمار از من درود است و سلام
Jis gunah par quran aur hadis me,
1) dunya me koi saja mukkarar na ho
2) jispar jahannam ki saja ka jikr na ho
3) jispar lanat ka jikr na ho,
4) Jo bagair toba ke dusri nekiyon ki wajah se bhi maaf ho jata hai
Aise gunah ko Sagira gunah kaha jata hai...
Magar sagira gunah ki misal chote saap jaisi hai, koi usse is liye la parwahi nahi karta ke wo chota hai,
Doosara masla is kitab me ye hai ke "Sagira gunah ko bar bar karne se woh Kabira ban jata hai" aur phir bagair toba ke maaf nahi hota....
Allahu aalamu haqiqatul haal...
please answer this question
[5:40 PM, 9/22/2019]
[8:09 AM, 9/22/2019]
ایک بزرگ عالم کا تاثر:الحمد للہ حضرت آپ نے بہت آہم موضوع پر بیان فرمایا ہے یہ اس دور کاسب سے بڑا وبائی مرض ہے اس پر اگر مزید بھی بات چیت ہوئی تو ہم متعلقین کے لیے بہت فائدہ ہو گا جبکہ اس کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھاجاتا ہے بہت سے دیندار لوگ فیس بک کو کھلے عام استعمال کرتے ہیں حالانکہ شراب کی طرح یہ اسمارٹ فون ام الخبائث ہےاچھائ تواسکےاندرہےہی نہیں کسی عالم کی تقریر چل رہی ہے درمیان میں بیہودہ اشتہار چلاتےہیں اللہ تعالیٰ اسکی تباہی سےپوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائیں
[8:08 AM, 9/22/2019]
ایک عالمہ کا تاثر:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ماشاءاللہ عجیب بیان ہے،بری صحبت کے معانی اس انداز میں پہلی مرتبہ سنے ہیں۔الحمدللہ آنکھیں کھول دیں،اس بیان کا ایک ایک لفظ آئینہ ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ والدین خود ہی بچے کے لئے بری صحبت ہیں،جب ہم بچوں کے سامنے ناجائز کام کرتے ہیں تو بچے سب سے پہلے اسی کو جواز کی دلیل بناتے ہیں اسی لئے جب بچوں کو روکا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ آپ بھی تو کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ ہمیں سچائی کے ساتھ دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بری صحبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔