You are here

حجة الاسلام امام غزالی رحمةاللہ علیہ

 

 

حضرت امام غزالیؒ پانچویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں، اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور خاص اللہ والوں میں ہیں۔ ان کو” عظیم مصلح، ممتاز مجتہد، بالغ نظر فلسفی، جلیل القدر صوفی “ کہا جاتا ہے ۔ حضرت امام غزالیؒ منقول یعنی علوم دینیہ کے بھی عالم تھے اور معقول یعنی فلسفہ اور منطق وغیرہ کے بھی ماہر تھے۔انہوں نے یونانی فلسفے کے خود ساختہ اصولوں ونظریوں کی خرابیاں خوب ظاہر کیں اسلا م کے عقائد واساسیات دین کی تشریح اس انداز میں کی کہ فلسفہ ومنطق کی بنیاد پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ احکام شریعت اور عبادات کے اسرار ورموز کو ایسے انداز میں پیش کیا کہ اُس وقت کے فلسفہ اور منطق کے طوفان کی وجہ سے جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں، وہ دور ہو گئیں۔ اسی وجہ سے آپ کو اپنے وقت کے مجدد کادرجہ ملا ہے۔


تعارف وتعلیم و تربیت

آپ کا نام محمد، لقب مجدد الاسلام اور حجة الاسلام اورعرف اس بناء پر غزالی ہے کہ ان کے والد روئی فروش تھے۔ امام غزالی خُراسان کے ایک مقام طاہران میں ۴۵۵ ھ (١٠٥٩ ء)میں پیدا ہوئے ۔ کچھ ہی عرصہ بعد ان کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور اُن کی ابتدائی تعلیم وتربیت ان کے والد کے ایک دوست نے کی، پھر امام صاحب نے عراق کا ایک شہر جُرجان میں فقہ پڑھی۔ اس کے بعد نیشاپور جو ایران کہ صوبہ خراسان کا ایک شہر تھا وہاں پہنچے اور مدرسہ نظامیہ میں اس وقت کے مسلّم الثبوت عالم اور بزرگ امام الحرمین علامہ ابو اسحاق شیرازی ؒ کی خدمت میں اپنی تعلیم مکمل فرمائی ساتھ ہی دین کی حقیقت کا علم حاصل کیا اور اسلامی اخلاق بھی سیکھے۔ امام الحرمین اُن کی استعداد کا اعتراف کیا کرتے۔ انہی کے ایماء پر اسی مدرسہ میں بحیثیت مدرّس بھی مقرر ہوئے۔ اس دوران ان کی کئی تالیفات منظر عام پر آئیں اور آپ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی جبکہ اس وقت کے علماء کے سامنے آپ بہت کم عمر تھے۔ امام الحرمین علامہ ابو اسحاق شیرازی ؒ کے انتقال کے وقت یعنی ۴۷۸ ھ میں ان کی عمر اٹھائیس سال تھی۔


علمی کارنامے

امام الحرمین کے انتقال کے بعد امام غزالی نیشاپور سے نکل کر نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے۔خداداد قابلیت وذہانت اور اچھے اخلاق سے دربار میں یہ مقام حاصل ہو گیا کہ کوئی بھی اہم کام آپ کی شرکت ومشورہ کے بغیر انجام نہیں پاتا تھا۔ یہ مذہبی مباحث ومناظرہ کا زمانہ تھا، امام صاحب نے بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سب علماء پر وہی غالب رہے اور امام غزالی کی شہرت وعظمت کو چار چاندلگ گئے۔ نظام الملک طوسی نے امام صاحب کو ٣٤ برس کی عمر میں مدرسۂ نظامیہ بغداد میں جواُس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا علمی مرکز تھا مسند درس کے لئے منتخب فرمایا۔ تمام حکام واُمراء اور عوام آپ کی علمی استعداد کی وجہ سے بیحد احترام کرنے لگے تھے۔ ۴۸۷ ھ کے بعد خلیفہ مستظہر باﷲ کی فرمائش پر آپ نے فرقۂ باطنیہ کے رد میں ایک کتاب مستظہری تصنیف فرمائی اور بے شمار علمی کارناموں اور مواعظ کے ذریعہ اسلامی خدمات انجام دیں۔


اصلاح باطن

لیکن حق تعالیٰ نے امام غزالی ؒ کو کسی اور ہی کام کے لئے چنا تھا ۔ ان کے خیالات میں منجانب اﷲ انقلاب واقع ہونا شروع ہوا اور محض علم کے کافی نہ ہو نے اور تعلق مع ا ﷲ حاصل کرنے کے لئے اصلاح باطن کی ضرورت کا شدیداحساس ہوا۔ پھرحق تعالیٰ کی طرف سے ایسا جذب ہوا کہ عین اس وقت جبکہ آپ شہرت وعزت کے بلند مقام پر فائز تھے تمام جاہ وحشم، دولت ،مناصب اور تعلقات کو یکسر ختم کرکے صرف ایک سادہ کمبل اوڑھ کر بغدادسے نکلے اور دمشق پہنچ کر ریاضت میں مشغول ہوگئے۔اس ریاضت کامقصد یہ تھا کہ نفس کے فطری تقاضے جو منجانب اﷲ ہر شخص میں ہوتے ہیں ان کوقابو میں لایا جائے تاکہ احکام شریعت کی پابندی بلا تکلف ہو سکے اور باطنی اخلاق سنت کے مطابق ہو جا ئیں تاکہ حق تعالیٰ بندہ سے راضی ہو جائیں۔ یہی حقیقت ہے اس درویشی یا تصوف کی جو شریعت مقدسہ کا ایک حصہ اور اس کا جزء ہے۔ امام غزالی ؒ اسی فن کے امام ہیں۔ اس کو کلام پاک میں تزکیہ نفس کہا گیا ہے۔ اس میں کوئی بات قرآن وسنت کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ تزکیہ نفس قرآن و سنت کے مطابق ہر شخص پر فرض عین ہے۔ افسوس جاہل صوفیوں نے اپنے حلوے مانڈے کے لئے اور فاسد مقاصد پورا کرنے کے لئے تصوف کا نام ا ستعمال کر کے اس کو بدنام کردیا ۔

امام غزالی ؒ نے دمشق میں دوبرس گزارنے کے بعد بیت المقدس کے گنبد صخرہ میں قیام کیا اور نفس کے خلاف ریاضت جاری رکھیں۔ پورے دس سال تک دنیا سے منہ پھیر کر اصلاح نفس کی تکمیل میں گزارے۔ اسی دوران آپ نے وہ زندہ جاوید کتاب تصنیف فرمائی جس کو آج پوری دنیا ’’احیاء العلوم‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے اُس وقت کے دنیا پرست علماء نے برداشت نہیں کیا اور آگ میں جلوا دیاکیونکہ امام صاحب نے اُس دور کے علماء کی اصلاح کے لئے اُن کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔لیکن آخر حق کو ہی فتح ہوئی اور پھر ان ہی علماء نے اپنی غلطی تسلیم کی اور اسی کتاب کو آب زر سے لکھوایا۔


آخری ایام حیات

وطن واپسی کے بعد امام صاحب دوبارہ مدرسہ نظامیہ نیشاپور میں مسند درس کی رونق بنے لیکن ۵۰۰ ھ کے بعد درس وتدریس سے کنارہ کش ہوکر طوس میں خانہ نشین ہوگئے، اور انتقال تک لوگوں کو دین کی حقیقت کی طرف بلاتے اور اصلاح نفس کی تعلیم کر کے فیضیاب کرتے رہے ۔ ١٤جمادی الثانی ۵۰۵ ھ کو بمقام طابران انتقال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔ امام غزالی ؒ کی عمر ٥٥ برس ہوئی، بیس سال کی عمر سے صرف ٣٥ سال میں آپ نے عقل کو حیرت میں ڈال دینے والی علمی خدمات انجام دیں اور سینکڑوں کتابیں بھی تصنیف فرمائیں ۔


تحریر و تالیف کا اثر

امام غزالی ؒ کی اصلاحی تحریر دل پر اثر کرنے والی اور پڑھنے والے پر اسکے اپنے عیبوں کو ظاہر کرنے والی ہوتی ہے۔ نورانی تحریر تحریر کی یہی خاصیت ہوتی ہے۔ کتاب تبلیغ دین امام غزالی ؒ کی کتاب اربعین کے تین ابواب کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔ یہ ترجمہ حکیم الامت ؒ کی ایماء پر مولانا عاشق علی میرٹھی صاحب ؒ نے کیا تھا۔ حکیم الامت ؒ اصلاح نفس کے طالب کو یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے تا کہ امراض نفس صاف نظر آنے لگیں۔ اس کتاب کا ایک مضمون جو، غفلت کی بیماری کے بارے میں ہے یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں غفلت سے بھول یا نیند مراد نہیں کیونکہ یہ تو غیر اختیاری امور ہیں اور شریعت نے ہمیں غیر اختیاری امور کا مکلف نہیں کیا ہے۔ گناہ وہ غفلت ہے جو قصداً ہوجس کی علامت یہ ہے کہ ایسا شخص حق تعالیٰ کے حکموں کو قصداًنظر انداز کرتاہے۔ یا توحق تعالیٰ کا جو حکم معلوم ہے اس پر عمل نہیں کرتایا اگر کسی موقع پرشریعت کا حکم نہ معلوم ہو تو اس کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہ وہ غفلت ہے جو اس وقت بھی مسلمانوں کا سب سے بڑا مرض ہے۔ اس غفلت کے بارے میں امام غزالیؒ کا وہ مضمون حسب ذیل ہے:

’’ خوب یاد رکھو کہ غفلت کا باطنی مرض بخار، جاڑا، پھنسی ، پھوڑا وغیرہ یعنی جسم کے ظاہری امراض سے بہت بڑھا ہوا ہے۔ اس کی کئی وجہیں ہیں:

ا) ایک تو اس وجہ سے کہ بدن کے امراض نظر آتے ہیں اور یہ مرض نظر نہیں آتا۔ اس کی مثال ایسی سمجھو جیسے کسی شخص کے چہرہ پر برص کے سفید داغ ہوں اور اتفاق سے آئینہ بھی موجود نہ ہو جس میں منہ دیکھ کر اپنا مرض معلوم کر لے تو یہ مرض زیادہ خطرناک ہو گا کیونکہ ممکن ہے دوسروں کے کہنے کا اس کو یقین نہ ہو اور اس بے اعتباری میں اس کا مرض بڑھتا جائے۔

٢) دوسرے اس وجہ سے کہ غفلت کے باطنی مرض کا انجام انسان نے دیکھا نہیں اور اس انجام کے نہ دیکھنے کی ہی وجہ سے حق تعالیٰ کی معافی پر بھروسہ کر کے ایسا مطمئن اور بے فکر ہو بیٹھا کہ علاج کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتا۔

٣) اور تیسرے اس وجہ سے کہ اس باطنی مرض کے طبیب مفقود ہو گئے! اور یہ بات نہایت درجہ افسوس و حسرت کے قابل ہے۔ کیونکہ اس قلبی مرض کے طبیب علماء شریعت اور عقلاء زمانہ تھے، اور وہ خود باطنی بیماریوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں۔ پھر جب ان کو اپنے ہی علاج کی خبر نہیں تو دوسروں کا کیا علاج کریں گے۔ ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ مہلک مرض دنیا اور مال دنیا کی محبت ہے اور اس پُر آشوب زمانہ میں سب سے زیادہ اس مرض میں علماء ہی گرفتار نظر آتے ہیں اور دنیا کی محبت سے روکنے اور منع کرنے کی ان کو جراء ت نہیں ہوتی، بلکہ اپنی رسوائی کے اندیشہ سے وہ یہ بھی ظاہر نہیں کر سکتے کہ دنیا کی محبت بری چیز اور باطنی امراض میں ایسا مہلک مرض ہے جس سے جانبری (جان بچنا) دشوار ہے۔ پس یہی وجہ ہے کہ یہ مرض لا علاج ہو گیا کیونکہ جب طاعون یا وبائی مرض عام طور پر پھیل جائے اور دوا کاپتہ نہ مل سکے اور طبیب خود مریض اور اسی مرض کے بیمار بنے ہوئے ہوں تو بھلا اس سے نجات کیونکر حاصل ہو۔ سب سے زیادہ مصیبت تو یہ ہے کہ ان روحانی طبیبوں یعنی علماء کی دیکھا دیکھی عوام کو دنیا کی محبت کی رغبت بڑھ گئی کیونکہ یہی وہ اصحاب ہیں جن کی تقلید کی جاتی ہے عام آدمی انہی کو اپناپیشوا اور مقتدا سمجھتے ہیں پس جب انہی کو دنیا کی محبت میں گرفتار دیکھیں گے تو پھر اس کو اچھی بات سمجھ کر کیوں نہ اقتداء کرینگے۔

افسوس کہ جن کو طبیب بنا کر دنیا میں بھیجا گیا تھا انہوں نے بجائے علاج کے مرض کو اور بڑھا دیا۔ جو لوگ مصلح بن کر آئے تھے وہ مفسد بن گئے۔ اور جن کو رہبر تجویز کیا گیا تھا وہ خود گمراہ ہو کر دوسروں کا راستہ کھوٹاکرنے کے درپے ہو گئے۔ گویا شیریں چشمہ کے دہانہ پر پتھر رکھ کر اڑ گئے کہ نہ خود پانی پیئیں نہ دوسروں کو پینے دیں۔ اے کاش! ان سے دنیا خالی ہو جائے اور یہ پتھر دہانہ سے سرک جائے۔ اگر وہ خود نا قابل ہیں تو ناقابل ہی سہی، مگر چشمہ کا دہانہ کیوں روکے ہوئے ہیں؟ پرے ہوں، الگ ہٹیں کہ دوسرے پیاسے توسیراب ہو جائیں۔ ‘‘

(نوٹ:اس تعارف کا جو اوپر پیش کیا گیا، اکثر حصہ کتاب کیمیائے سعادت کے ابتدائیہ پر مبنی ہے جو مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کے صاحبزادےحضرت رضی عثمانی صاحب کا تحریر کیا ہوا ہے۔)