You are here

عارف باﷲحضرت ڈاکٹر محمد عبدالحی عارفی ؒ

عارفی میرا  ہی   دل ہے محرم ناز و  نیاز --   بعد میرے راز حسن و عشق سمجھائیگا کون

 

عارف باﷲحضرت ڈاکٹر محمد عبدالحی صدیقی نوراﷲ مرقدہ اپنے شاعرانہ تخلص اور عارفانہ کلام کی وجہ سے حضرت عارفی کہلاتے تھے۔ والد ماجد کا اسم گرامی علی عباس صدیقی تھا۔حضرت عارفی کی ولادت باسعادت ٨ محرم الحرام ۱۳۱۶ھ (جون۱۸۹۸ ء) بمقام کدورہ ریاست باونی (یوپی ، ہندوستان)میں ہوئی۔ بچپن ہی میں والدہ انتقال فرماگئیں اور دادا ، دادی کی آغوش شفقت میں پرورش پائی۔آپ کا خاندان اولیاء اور صلحاء کے نور سے منور تھا۔ دادا مولوی کاظم حسین صاحب بڑے صاحب علم، صاحب دل، اور صاحب تاثیر بزرگ اور مولانا شاہ ابوالخیر صاحب مجدّدیؒ کے مجازین میں تھے۔دادی صاحبہ یوپی کے ایک بزرگ منشی نادر حسین صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ منشی نادر حسین صاحب ؒ کو حق تعالیٰ نے وجاہت دنیوی وعلمی کے ساتھ دینی وباطنی نعمتوں سے بھی نوازا تھا۔ وہ نواب محسن الملک مرحوم کے عزیز بلکہ چچاؤں میں تھے اور مشہور بزرگ حضرت شاہ غلام رسول صاحب رسول نما کانپوری کے خلفاء میں سے تھے ۔


 دینی اور دنیوی تعلیم

حضرت عارفی ؒ نے سات سال کی عمر میں ۱۹۰۵ ء میں کلام پاک ختم کیا اور ابتدائی تعلیم کے بعد عربی کی ابتدائی صرف ونحو اور فارسی درسیات کی تکمیل دادا کی نگرانی اوربراہ راست تدریس وتعلیم سے ہوئی۔ پوتے نے دادا سے علم بھی حاصل کیا اور علم کی چاشنی بھی پائی اور دادا کے محبت حق میں ڈوبے ہوئے دل نے وہی درد محبت اور سوزوگداز بھی پوتے کی رگ رگ میں پیوست کردیا۔ جب دینی اعتبار سے بنیادی صلاحیتیں پیدا ہو گئیں اور دین کی ترجیح دل میں راسخ ہو گئی اور ایمان کی حفاظت کا سامان ہو گیا تو کسب معاش کے لئے انگریزی تعلیم جد امجد ؒ نے ۱۹۰۸ میں شروع کرائی۔ اسکولوں کی تعلیم کانپور میں پائی۔ ایم اے او (M.A.O.)کالج علیگڑھ سے ۱۹۲۴ میں بی اے (B.A.) کے امتحان میں کامیابی ہوئی۔ پھر قانون کی سند لکھنؤ یونیورسٹی سے ۱۹۲۶ میں حاصل ہوئی۔


 انگریزی تعلیم سے کراہت

اس تعلیم کے باوجود حضرتؒ انگریزی تعلیم اور طور طریقوں سے کراہت اور سنت سے رغبت و محبت کرتے تھے۔ انگریزی اسکولوں سے اسقد رکراہت تھی کہ خود اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم میٹرک تک گھر پر دلوائی۔ساٹھ سال بعد بھی کراچی کی مجالس میں انگریزی تعلیم بچوں کو شروع سے ہی دینے کی خرابی بیان فرماتے تھے ۔ ایک مجلس میں فرمایاکہ جب بچے نے c سے catاورd سے dogپڑھکر تعلیم شروع کی تو اب اس میں کتے بلی کی ہی خصوصیات پیدا ہونگی۔اس ناکارہ نے یہ سنا تو مجلس کے بعد کچھ بیتابی سے عرض کیا کہ حضرت میں کیا کروں ؟بچوں کو تویہی واہیات تعلیم شروع کرادی ہے۔کیا اسکول سے نکال لوں؟ حضرت نے فرمایا ’’واقعی ہے تو سوچنے کی بات! ‘‘ اور غالباً کچھ دعاء کی۔ حق تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ اس کے چند ماہ بعد ہی بندہ کو مکہ مکرمہ میں ملازمت مل گئی اور بچوں کو قرآن اور عربی زبان کی ابتدائی تعلیم نصیب ہوئی۔ تجربہ ہمیشہ یہی ہوا کہ جو مشکل حضرتؒ کی خدمت میں عرض کر دی اس کا حل منجانب اﷲنکل ہی آیا۔


 وکالت اور ترک وکالت

حضرت عارفی ؒ نے کسب معاش کے لئے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جب اس کی اطلاع حکیم الامت ؒ کو دی تو حکیم الامت نے جواب میں یہ استفسار فرمایا کہ ’’سچی ایمانی قوت اور اتباع سنت کیا تعلیم قانون کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے؟ ‘‘ حضرت عارفی ؒ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ’’مجھے یہ معلوم کر کے بہت ملال ہوا کہ تعلیم قانون سے میں اتنی عظیم سعادت سے محروم ہو جاؤنگا، مجھے سخت افسوس ہے کہ زندگی کا ایک گرانقدر حصہ بے سود صرف ہوا،مجھے خود قانون کی طرف رجحان طبیعت نہیں تھا لیکن چند واقعات نے مجھے میری مرضی کے خلاف مجبور کر دیا۔‘‘ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تھانہ بھون حاضری دی۔ وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے سوال پر حکیم الامت ؒ نے بس یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ’’ تارک الوکالت ہونا بہتر ہے بہ نسبت متروک الوکالت سے۔‘‘یعنی تم خود وکالت کو آزما کرچھوڑ و یہ اس سے بہتر ہے کہ وکالت تمہیں چھوڑ دے۔ حکیم الامت ؒ کی اس بات میں حکمت تھی کہ کبھی زندگی میں یہ خلش نہ پیدا ہو کہ اگر وکالت کرتا تو اچھا ہوتا۔ یہ خلش ایمان کے لئے نقصان دہ ہوتی۔ اس وقت معاش کی کوئی دوسری مناسب صورت بھی نہ تھی۔ اس لئے حضرت عارفی ؒ نے دس سال تک ضلع ہردوئی میں وکالت کی۔ دیانتداری کی وجہ سے رسیور کا عہدہ حکومت کی طرف سے دیا گیا لیکن عدم مناسبت اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اور غیر مسلم ججوں کے ظلم کی وجہ سے زندگی کا یہ حصہ سخت مشکلات ، آزمائش اور قرض میں گزرا لیکن حکیم الامت ؒ کی رہنمائی میں زندگی کا یہی حصہ تزکیہ نفس کاذریعہ بن گیا۔ اور آخر کار حکیم الامت ؒ کا ایماء پا کر ۱۹۳۵ میں وکالت کا پیشہ ہی چھوڑ دیا اور تارک الوکالت بن گئے اورذریعہ معاش کے لئے ہومیوپیتھک طریق علاج کا فیصلہ کیا، اس کاعلم حاصل کیا، تجربہ کار ڈاکٹر سے فن سیکھا اور اس پیشے کو عمر بھر کے لئے اختیار کرکے جونپور میں قیام پذیر ہوگئے۔ یہ ایک بڑی قربانی تھی۔


 مالی حالات اور قدر نعمت

حضرت عارفی ؒ ۱۹۷۱ تک مالی تنگی میں رہے اور مجبوری کے تحت مقروض رہےعسرت اور مقروضیت کے ان مجاہدات سے گزارنے کے بعدپھر حق تعالیٰ نے وسعت اور فراغت کا دور بھی عطاء فرمادیا۔ اس دور میں کار خیر اور اہل حقوق کی امداد میں اس قدر خرچ کرتے کہ زکوٰۃ کبھی واجب نہیں ہوئی مگر اسراف اور نعمت کی ناقدری سے بہت بچتے۔ ایک بار حضرتؒ اس ناکارہ کو اپنے ساتھ دولت کدہ سے مطب لے گئے۔ مطب میں داخل ہوتے ہی حسب معمول ایک خادم نے جھاڑو دینی شروع کی۔ حضرت نے بندہ کو فرمایاکہ دیکھو جھاڑو میں ایک پن (pin) جارہی ہے اسے اٹھا لو۔ بندہ نے وہ لوہے کی چمکتی ہوئی پن اٹھا کر دی۔ اس پن کے کچھ حصہ میں زنگ بھی لگا ہوا تھا۔ حضرت نے پن کو حفاظت سے رکھ لیا اور فرمایا کہ ضرورت میں یہ کام آئیگی۔ بظاہر معمولی سی بات تھی مگر عمر بھر کے لئے نعمت کی قدردانی کا سبق تھا۔


 مثالی نکاح

تعلیم کے دوران ہی دسمبر ۱۹۲۴ء میں حضرت ؒ کا نکاح پھوپھی زاد بہن سے ہوا۔ حضرت عارفی ؒ کوخود ہی سنت کے اہتمام کا شوق تھا اور چونکہ حق تعالیٰ کو آپ سے یہ کام لینا تھا کہ وہ حق تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلائیں اور ایسی تبلیغ کے لئے سنت کے مطابق ظاہری اور باطنی زندگی بھی ضروری ہے اس لئے منجانب اﷲحضرت عارفی ؒ کا نکاح بھی سنت کے مطابق انتہائی سادگی سے مسجد میں ہوا۔ حضرت ؒ تن تنہا مرادآبادتشریف لے گئے حضرت ؒ کے والد صاحب بھی سادگی کی مثال قائم کرنے کے لئے ساتھ نہیں گئے۔


 خلاف سنت شادی سے نفرت

حضرت عارفی ؒ کو خلاف سنت شادیاں پسند نہیں تھیں اور شادیوں میں اسراف پر بار بار تنبیہ فرماتے تھے لیکن اپنے اقارب اور خاص احباب کی دل شکنی نہ ہواس خیال سے بعض اوقات ایسی تقاریب میں مجبوراً شرکت فرماتے تھے۔ ایک بار ایسی ہی ایک خلاف سنت تقریب سے واپس تشریف لائے۔ یہ ناکارہ موجود تھا۔دولت کدہ کے دروازہ پر پہنچتے ہی فرمایا ’’ مجھ سے بیگار لیتے ہیں۔‘ ‘ تین بار یہ جملہ دہرایا۔ حضرتؒ ہرطالب اصلاح کو شادی اور تمام امور زندگی میں اپنی تمام حالتیں بہشتی زیور کے مطابق رکھنے کی ہدایت فرماتے۔ایک بار ایک بزرگ شخصیت نے حضرت کو کہا کہ آپ کے بعض مرید اور متعلقین سنت کے مطابق سادگی سے شادیاں نہیں کرتے ، آپ ان کو تنبیہ کیوں نہیں فرماتے؟ حضرت نے اس اعتراض کو اپنی مجلس میں نقل کیا اور فرمایا کہ فلاں بزرگ یہ کہہ رہے تھے ۔ جواب یہ ہے کہ میں کیوں اس بات پر تنبیہ کروں؟ کیا ان کو علم نہیں ہے؟کیاان کو بہشتی زیور پڑھنے کو اور عمل کرنے کو کہہ نہیں دیا ہے؟ حضرت نے ایک پرچہ (پمفلٹ) چھپوا کر تقسیم کروایا تھا جس کاعنوان تھا :دور حاضر کے بڑے بڑے گناہ جن کو ترک کئے بغیر دوزخ سے نجات نہیں ہوگی’’ اس پرچہ میں پندرہواں گناہ یہ درج ہے: ’’تقاریب شادی وغیرہ میں نمائش و زیبائش کے لئے روپیہ صرف کرنا جو اسراف و تبذیر ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔‘‘ یعنی یہ ان بڑے گناہوں میں ہے جن کو ترک کر کے توبہ کئے بغیر دوزخ سے نجات نہیں ہوگی۔


 صدر پاکستان کے سامنے کلمۂ حق

۱۹۸۵ ء میں صدر پاکستان کی بہت عاجزانہ درخواست پر اور پرانے بزرگوں اور اہل اﷲ سے صدر پاکستان کے تعلق کی وجہ سے حضرت ؒ انکی صاحبزادی کا نکاح پڑھانے تشریف لے گئے تو صدر پاکستان نے بھی حضرتؒ کے مزاج کے لحاظ سے مسجد میں نکاح ، فرشی نشست اور پوری سادگی سے تقریب کا اہتمام کیا اور کوشش کی کہ کوئی بات سنت کے خلاف نہ ہو۔لیکن موجود حضرات دینی طور سے تو تربیت یافتہ تھے نہیں ۔ نکاح کے فوراً بعد مبارک سلامت کا شور ہوا اور مسجد کا ادب ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اس تاریخی نکاح میں یہ موقع کلمۂ حق کہنے کا تھا۔ حضرت کامنصب اپنے وقت کے قطب الارشاد کا تھا۔ وہ بھلا ایسے موقع پر کہاں رک سکتے تھے۔ صدر مملکت اور بڑے بڑے عہدیداران حکومت کے سامنے بلاخوف و جھجک حق بات کہی۔ مائیک اپنے ہاتھ میں لیکر بے دھڑک فرما دیا کہ کیا ہمارے اندر اتنا بھی خانہ ٔخدا کا احترام نہیں ہے کہ ہم یہاں شور کرنے سے بازرہیں۔ معاف کیجیے یہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ بڑی سخت بدتمیزی ہم نے کی ہے۔ یہ شور مسجد کی بے حرمتی ہے۔ ہم نے گناہ کیا ہے اور یہ بڑی کوتاہی ہم سے ہوئی ہے۔ آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ سب مل کر بلکہ ہم سب ملکر اﷲ کے حضور استغفار کریں۔ اس پر حضرت کے ساتھ صدر صاحب اور تمام مجمع استغفراﷲ پڑھتا رہا۔ صدر پاکستان کو بجائے اسکے کہ ناگواری ہوتی حضرت جیسے ہی اٹھے بلا تکلف حضرت ؒ کے پیر دبانے شروع کردئے۔


 حکیم الامتؒ سے اصلاحی تعلق

حضرت عارفی ؒ کا حکیم الامت ؒ سے تعلق ۱۹۱۷ سے شروع ہوا تھا۔ دعاء کے لئے خط لکھا کرتے۔۱۹۲۳ء سے باقاعدہ اصلاحی خط و کتابت شروع کی۔ ۱۹۲۷ ء میں حکیم الامت ؒ کی خدمت بابرکت میں حاضری ہوئی اور بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۹۳۵ ء میں ترک وکالت کے فوراً بعد حکیم الامتؒ نے ان کو اجازت خلافت سے سرفراز فرمایا۔ بقول عارفی ؒ : ’’ حضرت والا سے میرا تعلق بیعت کے بعد سے حضرت کی وفات تک سترہ سال رہا۔ اس عرصہ میں میں نے التزاماً اپنے حالات کا عریضہ ہر ہفتہ ارسال خدمت کیا۔ اس میں الحمد ﷲ کبھی ناغہ نہیں ہوا۔‘‘ حکیم الامت ؒ کی تربیت نے حضرت عارفی ؒ کے اعلیٰ اخلاق کو ایک عجیب بلندی پر پہنچا دیا ۔بقول حضرت بابا نجم احسن صاحب ؒ ’’حکیم الامت ؒ کی توجہات خاص نے عارفی کو باطنی طور پر جمال ہی جمال بلکہ یوسف جمال بنادیا۔‘‘


 اہلیہ سے مثالی سلوک

اس باطنی جمال کا ایک مظہر حضرت عار فی ؒ کااپنے گھر والوں سے وہ سلوک تھا جس کے قریب بھی اب شاید کوئی نہ پہنچ سکے۔ حضرتؒ نے اپنی ساٹھ سالہ شادی شدہ زندگی میں کبھی اپنے گھر والوں سے لہجہ بدل کربات نہیں کی اور نہ کبھی ان کو کسی کام کوکہا۔ یہ وہ سلوک ہے جو عین سنت ہے۔چنانچہ جب حضور ﷺ باہر سے گھر تشریف لاتے اور بھوک ہوتی تو حکم نہیں فرماتے کہ کھانا لاؤ بلکہ یوں فرماتے کہ کیا کھانے کو کچھ ہے؟۔ قرآن اور حدیث میں بیویوں سے خوش خلقی کی تاکید بہت واضح ہے۔ حضرت ؒ اپنے آپ کو خادم سمجھتے تھے اور اصلاح کے طالب کو یہی تلقین کرتے تھے کہ اپنے آپ کو بیوی بچوں کا خادم سمجھو۔

پاکستان کو ہجرت

۱۹۵۰ ء میں جبکہ حضرت عارفی ؒ کی عمر ۵۲ سال تھی ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی تشریف لے آئے۔ کراچی میں کسب معاش کے لئے ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے ہندوستان کے ۱۵ سالہ تجربہ کی بناء پر دوبارہ پریکٹس کا آغاز کیا۔ اور جلد ہی حضرت عارفی ؒ کا مطب جسمانی وروحانی علاج کا ایک ایسا مرکز بن گیا جس سے ہزاروں شفایاب ہوئے۔ ساتھ ہی پیر اور جمعہ کی اصلاحی بیان کی مجالس بھی شروع ہوگئیں اور یہ سلسلہ بھی بطور کرامت بلا ناغہ تاحیات جاری رہا۔

ہر دم گھڑی پر نظر

حضرت ؒ کی ایک بڑی خصوصیت ان کی ہر دم گھڑی پر نظر تھی۔ نظام الاوقات کی پابندی عجیب تھی۔ اپنے معمولات کو وقت پر ضرور ادا کر لیتے تھے۔ آخیر عمر میں بعض اوقات ضعف یا مرض سے نڈھال ہو تے تھے مگر اس حال میں بھی اپنے نظام الاوقات کے مطابق اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔ کتاب معمولات یومیہ میں پہلی نصیحت یہی تحریر فرمائی ہے کہ ایک مستحکم نظام الاوقات بناؤ۔

خوش خلقی

حضرت ؒ کے چہرہ پر سنت کے مطابق محبت آمیز تبسم ہو تا تھا۔ بس وہ حضوراکرم ﷺ کی ہر ادا کو جذب کئے ہوئے تھے۔ حضرت ؒ کی ایک اور بڑی خصوصیت اہل تعلقات کے حقوق کی ادئیگی اور ان سے محبت تھی۔ کم و بیش ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ حضرت ؒ اسی کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں اور توجہ فرماتے ہیں۔ اقارب کے ہاں جانے کے لئے ہفتہ میں ایک دن مقرر تھا اور روزانہ حضرتؒ کا دروازہ اہل تعلقات کے لئے کھلا ہوتا تھا۔ دین کے پانچوں شعبوں یعنی عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق میں شریعت و سنت کی پابندی اس طرح تھی کہ خوش خلقی سب سے زیادہ نمایاں تھی۔ گویا اسلامی شریعت کا لباس حضرت نے انسانیت کو پہنایا ہوا تھا۔ شخصیت میں دلفریب خوش خلقی، متانت اور سادگی لئے ہوئے اپنے وقت کا یہ قطب الارشاد پوری استقامت وقوت سے خود بھی شریعت پر عمل کرتا اور ہزاروں کو شریعت کی حقیقت سے آشنا اور شریعت کا خوگر بنا گیا۔

پر تاثیر زبان سے کلمۂ حق

حضرت عارفی ؒ عجیب پُرتاثیر زبان سے کلمۂ حق بیان فرماتے۔ مضامین وہ بیان فرماتے جن کی حالات حاضرہ میں ضرورت ہوتی۔ رائج الوقت گناہوں اور بالخصوص ٹی وی ، ریڈیو، تصاویر، موسیقی ،بے پردگی اورعورتوں مردوں کے اختلاط وغیرہ کے خلاف کثرت سے بیان فرماتے۔ ایسا انداز بیان تھا کہ گناہ کی برائیاں سامنے آجاتیں، گناہگاروں کو امید کی کرن ملتی۔ صاحب کشف اہل اﷲ کو اور اکثر علماء وصلحاء کو حضرت عارفی ؒ کے ’’قطب الارشاد‘‘ ہونے کا غالب گمان تھا۔

تالیفات کی مقبولیت

حضرت عارفی ؒ کی تالیف’’اسوۂ رسول اکرم (صلی اﷲ علیہ وسلم)‘‘ کو ساری دنیا میں عجیب مقبولیت حاصل ہوئی۔ متعدد زبانوں میں ترجمے ہوئے اور لاتعداد اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عارفی ؒ نے آٹھ انتہائی مفید کتابیں حکیم الامتؒ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے تالیف فرمائیں ان میں احکام میت بھی عجیب مفید کتاب ہے ۔اس جیسی کتاب کی مسلمانوں کو ضرورت تھی۔ اس کو بھی عالمی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ حضرت ؒ کے ایک مختصر کتابچہ ’’معمولات یومیہ اور مختصر نصاب اصلاح نفس‘‘ کو عوام وخواص میں بے انتہاء مقبولیت حاصل ہوئی۔ بقول عارفی ’’اسوۂ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ خزانہ ہے او ر ’’ معمولات یومیہ‘‘ اس کی کنجی ہے۔

حق تعالیٰ سے جاملے

ساری زندگی ایک عجیب استقامت کے ساتھ رعایت حقوق اور حفظ حدود کا ہر دم خیال رکھتے ہوئے حضرت ؒ اپنے تمام معمولات کو آخری وقت تک پورا کرتے رہے۔ اور خلق خدا کی دینی اور دنیاوی خدمت میں لگے رہے۔ جمعرات ۱۵رجب ۱۴۰۶ ھ (۲۷؍مارچ ۱۹۸۶ ء) کو فجر کی اذان کے ساتھ اپنے تمام فرائض اور ذمہ داریوں سے بطریق احسن سبکدوش ہوکر حق تعالیٰ سے جاملے۔ حق تعالیٰ ان کو اپنی رحمت خاص سے سرفراز فرمائیں، ہر چھوٹی بڑی خطاء سے درگذر فرمائیں اور جنت میں درجات عالیہ نصیب فرما ئیں۔

آمین، اللھُمَّ آمین، بحق سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

---------------------------------------------------------

[pagelist]