You are here

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ

راہ حق تجھ کو اگر مطلوب ہے دوڑ کر تھانہ بھون کی راہ لے

 

حضرت حکیم الامت ؒ کا اسم گرامی اشرف علی تھا ۔ وَلادت باسعادت ٥ربیع الثانی ۱۲۸۰ ھ چہارشنبہ کے دن صبح صادق کے وقت بمقام تھانہ بھون (ضلع مظفر نگر یوپی انڈیا) میں ہوئی۔ تھانہ بھون کے ایک مقتدر علم و وجاہت وا لے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ دادھیال فاروقی اور نانھیال علوی ہے۔والد جناب عبد الحق صاحب ایک مالدار مقتدر رئیس اور صاحب جائداد تھے۔ اور میرٹھ کی ایک بڑی ریاست کے مختار عام تھے۔ والدہ پیر زادوں کے ایک مشہور خاندان کی ایک باخدا اورصاحب نسبت خاتون تھیں۔ یعنی حکیم الامت کوعقل و فراست کی دولت دادھیال سے ملی تو عشق الٰہی کی دولت نانہیال سے ملی۔


تعلیم وتربیت

پانچ سال کی عمر ہی میں والدہ کاسایہ سر سے اٹھ گیاتھا۔ والدنے والدہ سے بھی زیادہ شفقت کی اور ا یسی محبت سے پالا کہ والدہ کا رنج بھلا دیا۔ والد کی خداداد فراست نے بچپن سے ہی آپ کو دینی تعلیم کے لئے اور چھوٹے بھائی اکبر علی کو انگریزی تعلیم کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ انہوں نے علوم فارسی وحفظ قرآن سے حکیم الامت کو وطن ہی میں فارغ کرایا پھر دیوبند بھیج دیا۔ دارالعلوم دیوبند سے علوم دینیہ کی تکمیل ١٣٠٠ھ میں ہوئی ۔اس وقت آپ کی عمر تقریباً ٢٠ سال تھی۔حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ العزیز کے متبرک ہاتھوں سے آپ کو دستار فضیلت ملی۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب رحمة اﷲ علیہ اور مولانا محمد یعقوب صاحب دیوبندی رحمة اﷲ علیہ کی توجہات خصوصی آپ کے ساتھ وابستہ رہیں۔


تدریس

تعلیم سے فارغ ہوکر آپ صفر ١٣٠١ھ میں ملازمت کے لئے مدرسہ فیض عام کانپور تشریف لے گئے۔ لیکن چونکہ آپ کو اس سے سخت نفرت تھی کہ ایک عالم دین مدرسہ کے لئے چندہ کی تحریک کرے بلکہ اس کو غیرت دینی کے خلاف سمجھتے تھے اس لئے تین چار ماہ بعد ہی جب مدرسہ والوں کو آپ کے اس موقف سے شکایت ہوئی تو وہاں سے قطع تعلق کر لیا اور تھانہ بھون کا قصد کیا۔ لیکن روانگی سے پہلے حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن صاحب گنج مرادآبادی کی زیارت کو تشریف لے گئے کہ پھر شایداس طرف آنا نہ ہو ۔ اس موقع پر آپ کے والد صاحب نے تدریس جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ہمیں تو نوکری مقصود نہیں، اﷲتعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے ہم نے تو محض اس لئے تم کو نوکری کی اجازت دیدی تھی کہ ابھی کتابیں تازہ ہیں پڑھانے سے پختہ ہو جائیں گی‘‘۔ اس دوران کانپور کے مقتدر حضرات نے جن کو آپ سے بے حد محبت و عقیدت ہو گئی تھی یہ طے کیا کہ ایسے قابل اور متقی مولوی کہاں ملتے ہیں ،ان کو یہاں سے نہ جانے دیا جائے اور ان کے لئے ایک الگ مدرسہ کھولا جائے۔ چنانچہ جب آپ گنج مرادآباد سے واپس آئے تو بے حد اصرار سے نیا مدرسہ کانپور کی جامع مسجد میں کھول کر آپ کو روک لیا۔ آپ نے اس مدرسہ کا نام جامع العلوم رکھا ۔وہاں ١٤ سال درس وتدریس میں مشغول رہے اور علوم ظاہری وباطنی کے فیوض سے خواص وعوام میں آپ کی ہردلعزیزی اور جاذبیت روز بروز بڑھتی گئی۔


حاجی امداد اللہ صاحب ؒ سے اصلاحی تعلق

کانپور میں تدریس کے دوران ١٣١٠ھ میں حج کے لئے تشریف لے گئے۔ آپنے پہلا حج بیس سال کی عمرمیں اپنے والد صاحب کی معیت میں ١٣٠١ھ میں کیاتھا اور قطب العالم شیخ العرب والعجم حضرت شاہ محمد امداد اﷲ صاحب تھانوی ثم مہاجر مکی قدس سرہ العزیز سے تزکیہ نفس کے لئے دست بدست بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا تھا۔اس بار پیر ومرشدکے ایماء وخواہش سے چھ ماہ ان کی خدمت میں مکہ مکرمہ میں قیام کیا اور اپنے شیخ کی مشفقانہ ومربیانہ تربیت باطن اور توجہات خصوصی کے ساتھ اپناتزکیہ نفس قرآن و سنت کے مطابق کراتے رہے اور رذائل نفس پر قابو پاکر حق تعالیٰ کے احکام پرپورا پورا عمل کرنا سیکھتے رہے اور اپنے شیخ کے علوم ربانی وفیوض روحانی سے مستفیض ہوتے رہے۔ حاجی صاحب نے آپ کی صلاحیت اور استعداد کا اندازہ کرتے ہوئے نہایت مسرّت کے ساتھ خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا اور خاص بشارتوں اور وصیتوں کے ساتھ رخصت فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ: ’’دیکھو جب کبھی کانپور میں مدرسہ کی ملازمت سے برداشتہ خاطر ہوجاؤ تو پھر اپنے وطن تھانہ بھون میں ہماری خانقاہ اور مدرسہ کو ازسر نو آباد کرنا اور توکّلا ً علی اﷲ وہاں قیام پذیر ہوجانا انشاء اﷲ تعالیٰ تم سے خلائق کثیرہ کو نفع پہنچے گا۔میری دعائیں اور توجہات تمہارے شامل حال ہیں۔‘‘

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔حج بیت اﷲ سے واپس آکر کچھ عرصہ درس وتدریس میں مشغول رہے۔ ۱۳۱۵ ہجری میں ملازمت چھوڑ کر اپنے وطن تھانہ بھون میں اپنے پیر ومرشد کی یادگار خانقاہ امدادیہ میں حق تعالی پر کامل توکل کے ساتھ قیام پذیر ہوگئے اور خاندانی دولت اور بھائی کی مالی امدا د کی پیشکش سے منہ موڑ لیا اور نہ ہی کسی مدرسہ سے ملازمت کا کوئی تعلق رکھا۔ اس زہدو توکل پرجو نبیوں کی سنت ہے حضرت حاجی صاحب ؒنے مکہ مکرمہ سے تحریر فرمایا۔ ’’بہتر ہوا کہ آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے امید ہے کہ خلائق کثیر کو آپ سے فائدہ ظاہری وباطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور مسجد کو ازسر نو آباد کریں گے۔ میں ہر وقت آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘


تھانہ بھون کا قیام

اس کے بعد یہ مجدد وقت تھانہ بھون میں اپنی مسند رشد وہدایت پر اصلاح اُمت کا نسخۂ اکسیر صحابہ کے انداز پر لیکر بیٹھا۔ آسمان کے نیچے ایک مہتم بالشان مجلس لگی،حقیقت منکشف ہوئی، شریعت کے حکموں پر پورا پورا چل کر حق تعالیٰ کو راضی کرنے کا طریق زندہ ہوا، اصلاح کا باب کھلا، انسانیت تقسیم ہوئی،بدعات کا قلع قمع ہوا اور گمراہی کے دروازے بند ہونے شروع ہوئے۔ خانقاہ تھانہ بھون حکیم الامت کے اس قول کی منہ بولتی تصویر بن گیا کہ '' بزرگ بننا ہو،قطب بننا ہو، غوث بننا ہو، تو کہیں اور جاؤ اورانسان بننا ہو تو یہاں آؤ'' اور وہ مخلص مسلمان جو اپنے غصہ، کبر، کینہ،حسد،ظلم، جاہ طلبی، خود پسندی و خود رائی اور شہوت وغیرہ پر قابو پاکر انسانیت سیکھنا چاہتے تھے ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے آنے لگے۔ علماء اور طلباء ہی صرف نہیں بلکہ ان میں انگریزی تعلیم یافتہ، انجنئر،ڈاکٹر ،وکیل ،بیرسٹر،سرکاری افسر اور تجارت و زراعت پیشہ امیر غریب سب ہی طرح کے لوگ تھے ۔ حضرت اپنی مجلس میں علوم ومعارف وحقائق کے دریا بہاتے اہل ذوق حضرات ان باتوں کو سنتے اور لکھتے۔ اور اہل دل حضرات تعلق مع اﷲ کا وجدان حاصل کرتے۔ بڑے بڑے علماء وعقلاء اور فلسفی،حکیم الامت کے سامنے گردن جھکا کر بیٹھ جاتے۔

تصوف کے وہ حقائق ومعارف جو عربی وفارسی زبان میں راز کی صورت میں مدون تھے اس دور آخر کے مجدد نے علی الاعلان سہل اردو زبان میں سب کے سامنے فاش کر کے بتا دیا کہ جاہل صوفیا ء نے تصوف کو بدنام کیا ہے ورنہ تمام تصوف و سلوک کا حاصل سوائے اس کے کچھ نہیں کہ حق تعالیٰ کو راضی کیا جائے اور حق تعالیٰ شریعت کے مطابق ظاہری اور باطنی احکام کی بجا آوری سے راضی ہوتے ہیں۔ حکیم الامت نے دین حق کے ایک ایک جزو کو ایسا بے غبار کردیا کہ صدیوں تک تجدید کی ضرورت باقی نہ رہی اور اس شاہراہ پر دور دور تک اب کسی جاہل صوفی کی مجال نہیں کہ دھوکا دے سکے۔


خدمت دین

خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں حضرت نے اپنی زندگی کے پچاس سال تصنیف وتالیف اور مواعظ وملفوظات سے دین کی خدمت کرنے میں بسر کئے۔ایک ہزار کے قریب ایسی کتابیں اور رسالے تصنیف فرمادیں جو محض علمی نہیں بلکہ عملی طور سے نہایت مفید اور مضامین و الفاظ کے لحاظ سے الہامی ہیں۔ اس دوران ملک اور بیرون ملک سے ہزاروں سالکین طریق اور دین حق کے طالب، تعلیم وتربیت باطنی اور تزکیۂ نفس سے فیضیاب اور بہرہ اندوز ہوکر بحمداﷲ امت مسلمہ کے رہبر اور مرشد بن گئے ۔ تمام اہل حق نے تسلیم کیا کہ وہ حکیم الامت ،مجدد ملّت ، محی السنت (سنت کو زندہ کرنے والے) اور حجة اﷲ فی الارض تھے۔ یہ القاب نہ تھے بلکہ اوصاف تھے ۔ حکیم الامت کی تصانیف و تالیف ان کی حیات ہی میں مسلمانوں کے ہر طبقہ کے خواص وعوام میں اپنی جامعیت ونافعیت کی بناء پر مقبول ہوئیں بر صغیر کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئیں اور اشاعت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور دنیا بھر میں مسلمان ان سے مستفیض ہو کر اپنے عقائد اور اعمال کی اصلاح کر رہے ہیں۔ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء۔


وصال

یہ عظیم شخصیت تریسٹھ سال کی عمر میں١٦ رجب ١٣٦٢ھ (مطابق١٩ جولائی ١٩٤٣ء)کو بوقت نماز عشاء اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ رحمت ومغفرت میں شادماں و کامراں باریاب ہو گئی۔

(کتاب مآثر حکیم الامت اور اشر ف السوانح سے ماخوذ)