You are here

حضرت ڈاکٹر حفیظ اﷲؒ

مرد حقانی کی پیشانی کا نور کب چھُپا رہتا ہے پیش ذی شعور

عارف باﷲحضرت ڈاکٹر حفیظ اﷲصاحب نور اﷲ مرقدہ کے چہرے پر ایک ایسا نور تھا کہ انجانے لوگ بھی نظر پڑتے ہی متاثر ہو جاتے۔ ایک بارمسجد الحرام میں کعبہ شریف کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔یہ ناکارہ حضرتؒ کے قریب ذرا پیچھے ہو کر بیٹھا ہوا تھا۔عربوں میں سے ایک باعزت شخص ادھر سے گزرتے ہوئے دیکھ کر رک گیا۔پیچھے آکراس ناکارہ کے کان میں آہستہ سے پوچھاکہ یہ کون ہیں؟ بندہ نے عرض کیا کہ سکھر کے ایک ڈاکٹر ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ ان کا چہرہ دیکھ کر کلام پاک کی یہ آیت یاد آگئی

’’سِیماھُم فی وُجُوھِھِم مِن اَثَرِ السُجُود‘‘

یعنی ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہروں میں نمایاں ہیں ۔ (یہ آیت صحابہؓ کے چہروں کے بارے میں ہے۔) یہ تھے حضرتؒ ! خشیت، فنائیت، عبدیت اور کثرت عبادت کے آثار سے منور چہرہ والے۔


والد ماجد مولوی نذیر احمد صاحبؒ

حضرت ؒ کے والد ماجد حضرت مولوی نذیر احمد صاحبؒ جو سرکاری اسکول میں عربی کے استاذ تھے وہ بھی اسی رنگ کے بزرگ تھے ۔ مفتی محمد حسن صاحبؒ کے نام ان کے مکتوبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عبدیت اور فنائیت کی ایک مثال تھے ۔ حکیم الامت ؒ کے خلیفہء خاص حضرت مفتی محمد حسن صاحبؒ (بانی جامعہ اشرفیہ، لاہور) نے جب ان کواجازت خلافت سے سرفراز فرمایا تو جواب میں تحریر فرمایا کہ’’ یہ بہت بڑا بھاری بوجھ ہے۔احقر قسمیہ عرض کرتا ہے کہ یہ ناکارہ ہیچ در ہیچ ہے۔‘‘


ولادت اور تعلیم

حضرت ؒ کی ولادت باسعادت ۱۶؍رمضان المبارک ۱۳۳۶ ھ مطابق ۷ جولائی ۱۹۱۸ ء کو اس وقت کے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی سرحد پر آزاد کشمیر کے ایک گاؤں ’’متیان والہ‘‘ ( (Matian میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انگریزی تعلیم کے ساتھ حضرت ؒ کے والد صاحبؒ نے حضرؒ ت کو قرآن مجید کا ترجمہ تفسیر، مشکوٰۃ شریف اور گلستان بوستان جیسی کتابیں پڑھادی تھیں۔ پھر ۱۹۳۵ میں امرتسر میں ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے کالج میں داخل کرایا


مفتی محمد حسن صاحب ؒ سے تعلق کی ابتداء

اور وہاں اپنے شیخ حضرت مفتی محمد حسن صاحبؒ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ’’ میں نے اپنے بیٹے حفیظ اﷲ کو کفر کے گڑھ میں داخل کرا دیا ہے، آپ اس کے ایمان کی حفاظت کے لئے دعاء بھی فرمادیں اور سرپرستی بھی۔یہ بچہ آپ کی خدمت میں انشاء اﷲ ہمیشہ حاضری دیتا رہیگا۔‘‘ چنانچہ حضرتؒ پابندی سے ہر اتوار کی صبح کو مسجد نور امرتسر میں حضرت مفتی صاحبؒ کا درس سنتے اور اشراق پڑھ کر حضرت سے مصافحہ کر کے واپس آجاتے ۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ حرف بہ حرف جو درس میں سنتے اس پر عمل بھی فرماتے۔


ڈاکٹر ایسا ہونا چاہیے

۱۹۴۰ء میں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی کالج کے ہسپتال میں ایک سال کام کیا اور پھر ریلوے میں بحیثیت میڈیکل افسر تعینات ہوئے۔ ریلوے کی ملازمت کے دوران انبالہ اور دہلی رہنا ہوا اور بعد میں بلوچستان کے ایک دور افتادہ قصبہ ’’احمدوال‘‘ میں قریباً چار سال گزارے۔ ۱۹۴۸ ء میں منجانب اﷲ کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ بزرگوں کے مشورہ اور حکم سے ملازمت چھوڑ کر سکھر میں سکونت اختیار کرلی۔ یہاں شروع کے کئی سال بہت مشکل ، تنگی، قرض اور عسرت میں گزرے لیکن پھر حق تعالیٰ نے وسعت و فراغت ومقبولیت عطاء فرمادی ۔ سکھر حضرت کا وطن بن گیا۔ سینتالیس سال حضرتؒ سکھر میں مقیم رہے۔کلینک صبح شام کھلتا۔حضرؒ ت کو ضرورت سے زیادہ مال تو مقصود ہی نہ تھا اور مال کا فانی ہونا ہر دم مستحضر ہوتا تھا چنانچہ غریب غرباء، اقارب و احباب، مدارس کے طلباء،علماء اور کلام پاک کی تعلیم دینے والوں سب کا علاج مفت فرماتے۔ محتاجوں کی مالی مدد فیاضی سے فرماتے۔ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ایک غریب بڑھیا مریضہ کے گھر جا کر اس کو دیکھا۔ دوا اور کھانے کاپرہیز تجویز کیا تو بڑھیا نے کہا کہ بیٹا مجھ اکیلی کو کون یہ پرہیزی کھانا بنا کے دیگا۔ یہ سن کر کئی دن حضرتؒ خود اس کے پاس جاکر اس کے پرہیزی کھانے کا انتظام فرماتے۔ حضرتؒ کے اس واقعہ کو حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی ؒ پر تاثر انداز میں سنا کر فرما یا کرتے تھےکہ ڈاکٹر ایسا ہونا چاہیے۔


تزکیہ نفس کا مرکز

اناج بازار سکھر میں حضرتؒ کا کلینک رفتہ رفتہ جسمانی علاج کے ساتھ تزکیہ نفس اور حق تعالی کو راضی کرنے کے طریق کی اشاعت کا مرکز بنتا چلا گیا۔ مریضوں سے ذرا وقت ملتا تو حضرت اپنی اصلاح کے لئے آئے ہوئے حضرات کی طرف متوجہ ہو کر نصیحت کی باتیں فرمانے لگ جاتے۔ کلینک کے قریب ہی بس سڑک کے اس پار کی ایک گلی میں پنج وقتہ نماز کے لئے ایک چھوٹی سی مسجد’’ باب الاسلام‘‘ حضرت ؒ نے قائم فرمائی تھی۔ اس کا پوار انتظام خود فرماتے تھے۔ مسجد کے ساتھ ہی ایصال ثواب کے لئے پانی کے پمپ لگوا دئے تھے۔ کلینک کے اوقات کے دوران ظہر، مغرب اور عشاء کی نمازیں حضرت یہیں پڑھتے۔ عشاء کے بعد حضرت مختصر سا درس دیتے۔ نماز جمعہ حضرت قریب ہی کی مفتی عبد الحکیم صاحب ؒ کی قائم کردہ نورانی مسجد میں پڑھتے اور نماز جمعہ کے بعد حضرتؒ اپنے کلینک میں تشریف لے آتے جہاں سکھر اور سکھر سے باہر سے آئے ہوئے اصلاح کے طالب معتقدین جمع ہو جاتے اور حضرتؒ مواعظ و ملفوظات اورحکیم الامت ؒ کی دوسری کتابوں سے نوٹ کی ہوئی باتیں بیان فرماتے۔ کلینک کے اوپر کی منزل میں کمرے تھے۔ اصلاح کے طالب جب آتے تو حضرتؒ انہیں ان کمروں میں ٹھیرا دیتے تھے۔ بہت خاص مہمانوں کو حضرت اپنے خلیفۂ خاص حضرت حاجی عبد الستار صاحب دامت برکاتہم کے سپرد کرتے وہ ان کی مہمانداری کرتے۔ رمضان المبارک میں حضرؒ ت کے ساتھ اعتکاف کے لئے اصلاح کے طالب لوگ مختلف شہروں سے آتے تھے۔ ان کو حضرتؒ اپنے مہمانوں کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے متعدد خدام میں تقسیم فرمادیتے جو ان مہمانوں کے کھانے پینے اور تمام ضروریات کا خیال رکھتے۔ حضرتؒ کا کلینک اور مسجد مل کر گویا پوری خانقاہ تھی۔مگر اس میں سنت کے مطابق تزکیہ نفس اور دین کی تعلیم کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔نہ کوئی رسمی باتیں ہوتیں ،نہ خلاف سنت کوئی کام ہوتا ، نہ کسی سے کوئی امدادی رقم نہ لی جاتی بلکہ اکثر اپنے مہمانوں کو حضرتؒ ہی کچھ ہدیتاً دیا کرتے۔


اجتماعی ذکر سے اجتناب

حضرت کی کلینک یا مسجد میں اجتماعی ذکر کبھی نہیں ہوتا۔ حضرتؒ اجتماعی ذکر کی مجلس کے خلاف تھے کیونکہ حکیم الامت ؒ نے اس کے مفاسد کی وجہ سے منع فرمایا ہے۔ مدینہ منورہ میں ایک بار حضرت ایک صوفی بزرگ سے ملنے تشریف لے گئے تو اس ناکارہ کو ساتھ لے گئے۔ اندر کے کمرے سے بلند آواز سے اجتماعی ذکر کی آواز باہر کی بیٹھک میں آرہی تھی۔ حضرت ؒ نے واپس نکلتے ہی اس ناکارہ کو فرمایا کہ یہ ہمارے ذوق کے نہیں ہیں۔اجتماعی ذکر صحیح نہیں ۔حق تعالیٰ تو بس سنت کے مطابق فرداً فرداً ذکر سے خوش ہوتے ہیں۔


حکیم الامت سے تعلق

حضرت ؒ کا حکیم الامت سے تعلق اس وقت شروع ہوا جب ڈاکٹری کی تعلیم کے سلسلہ میں ۱۹۳۹ میں میسور جانا ہوا اور واپسی پر حضرت ؒ تھانہ بھون تشریف لے گئے۔ حکیم الامت ؒ کی زیارت نصیب ہوئی۔ دو دن قیام رہا۔ مجالس میں فنائیت کا مضمون سننے کو ملا اور بیعت کا تقاضہ دل میں پیدا ہوا۔ ہمت کر کے بیعت کی درخواست کی۔ مگر حکیم الامت ؒ کے نزدیک اصل چیز اصلاح نفس تھی ، اس لئے فرمایا کے میرے کسی مُجاز سے اصلاح کا تعلق پیدا کر کے لکھنا۔ واپس امرتسر پہنچ کر حضرت مفتی محمد حسن صاحب ؒ سے اصلاحی تعلق کی درخواست کی تو مفتی صاحبؒ نے حضرت کی طلب صادق کا اندازہ کر کے اس درخواست کو قبول فرمایا۔ حضرؒ ت نے حکیم الامت ؒ کواس اصلاحی تعلق کی اطلاع دی تو حکیم الامت ؒ نے بذریعہ خط بیعت فرمالیا اور دعاؤں سے نوازا۔


مفتی محمدحسن صاحب ؒ سے اصلاح

اس کے بعد حکیم الامت ؒ کے فرمان کے مطابق حضرتؒ بہت دھن اور دھیان سے اپنے نفس کی اصلاح حضرت مفتی محمدحسن صاحب ؒ سے کراتے رہے اور بہت تفصیل سے ہر چھوٹی بڑی بات کو مفتی صاحب ؒ کی خدمت میں پیش کر کے اپنی زندگی کے تمام اقوال و افعال اور بالخصوص اپنی سوچ کو یعنی اعمال باطنہ کوسنت کے مطابق بناتے رہے کیونکہ اعمال باطنہ ہی تمام اعمال ظاہرہ کی بھی بنیاد ہیں اور اعمال باطنہ کا تعلق اس سے ہے کہ بندہ قصداً کیا سوچتا ہے۔ حضرت ؒ بہت محنت سے تمام رذائل نفس پرمکمل قابو پانے اور اخلاق حسنہ میں رسوخ حاصل کرنے میں لگے رہے۔حتیٰ کہ اس فن سلوک میں عملاً کمال کا درجہ حاصل ہو گیا۔چنانچہ حضرت ؒ اپنے ہم عصر بزرگوں میں شیخ کامل کہلائے۔ مفتی محمد حسن صاحب ؒ کے ایک ملفوظ میں جو ٹیپ میں محفوظ ہے اس کی تصدیق ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے خلفاء میں آپ کے ذوق کے مطابق پورا پورا عمل کون کر رہا ہے تو فرمایا کہ ڈاکٹر حفیظ ا ﷲ صاحب، ان کے یعنی ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب کے چھوٹے بھائی حفیظ الرحمٰن صاحبؒ ا ورمفتی خلیل احمد صاحبؒ ۔


شیخ کامل کادرجہ اور فنائیت

حضرت رحمۃ اللہ کو شیخ کامل کایہ درجہ اپنے شیخ کی کامل اتباع سے ملا۔یہ اتباع کیسی تھی؟ اس کا اندازہ اس سے ہو گا کہ حضرت عارفی ؒ کے دولت کدہ پر ۱۹۹۰ میں حضرؒ ت کا ایک بیان ہوا۔ اس میں حضرت ؒ نے حاضرین کو خطاب کے شروع میں ارشاد فرمایا کہ ’’میں یہاں بیٹھ کر بیان کرنے کا اہل نہیں لیکن مجھے جس بات سے فائدہ پہنچا وہی آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت مفتی صاحب ؒ سے تعلق کو اب ۵۵ سال گزر چکے ہیں۔ الحمد ﷲاس دن سے یہ آج کا دن ہے اتنے عرصہ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اپنے شیخ سے سنی ہوئی یا خط میں لکھی ہوئی کسی بھی بات کے خلاف کیا ہو۔‘‘ یہ وہ فنائیت تھی جو محض ﷲ تھی کیونکہ حضرتؒ کے شیخ اپنی طرف سے تو کچھ بھی نہ بتاتے تھے،صرف اﷲ کے احکام اور ان پر عمل کا طریقہ بتاتے تھے۔ اس فنائیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرؒ ت کی تمام حرکات وسکنات اور خیالات سنت کے مطابق ہو گئے، اﷲ اور رسول ﷺ کی وہ محبت جو شرعاً مطلوب ہے دل میں راسخ ہو گئی اور گناہ سے سخت نفرت ہو گئی۔ ایک بار حضرت مفتی صاحبؒ کو اطلاع دی کہ’’جب احباب میں سے کسی کو خلاف شریعت کوئی کام کرتے دیکھتا ہوں تو دل پر ایسا اثر ہوتا ہے جیسے کسی نے چھرا گھونپ دیا۔‘‘ یہ تھا بغض فی اﷲ جوحق تعالیٰ کی محبت کا لازمی نتیجہ ہے۔


بغض فی اﷲ کی حقیقت

اس بغض فی اﷲ کی حقیقت اس ناکارہ کو اس وقت سمجھ میں آئی جب حضرؒ ت سے دریافت کیا کہ ایک طرف حکم ہے بغض فی اﷲ کا اور دوسری طرف اپنے کو کافر فرنگ سے بھی بدتر سمجھنے کا حال مطلوب ہے۔ یہ دونوں باتیں ایک ہی دل میں کیسے جمع ہو سکتی ہیں ؟یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ حضرؒ ت نے دل کو روشن کرنے اور آنکھیں کھول دینے والا جواب تحریر فرمایا کہ:

’’ بغض فی اﷲ یہ ہے کہ گناہ سے نفرت ہو مگرگناہگار سے نفرت نہ ہو، کفر سے نفرت ہو مگر کافر سے نفرت نہ ہو۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ گناہگار تو مریض ہے اور ہمدردی کا مستحق۔ حضور ﷺ ہر کافر کے مسلمان ہو کر جنتی ہو جانے کے متمنی تھے۔ کفر یا گناہ سے نفرت کا مطلب یہ ہے کہ کہ کفر یا گناہ میں مبتلا ہونے سے کراہت و نفرت ہو، خوف آتا ہو جیسے بیماری میں مبتلاء ہونے کے خیال سے کراہت ہوتی ہے۔


اجازت بیعت و تلقین

۱۹۵۷ میں حضرت مفتی صاحب ؒ نے حضرتؒ کو بیعت و تلقین کی اجازت عطاء فرمائی۔ اجازت نامہ ملنے پر حضرت ؒ پر عجیب اثر ہوا اور جواب میں تحریر فرمایا کہ ’’ ابھی تک تو اس احقر نے کیا ہی کچھ نہیں یہاں تک کہ نماز مبتدی (یعنی شروع کرنے والے) جیسی بھی پڑھنی نصیب نہیں ہوتی ہے‘‘۔ اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ ’’ حضرت اس ناکارہ کو تو آنحضرت سے ابھی بیعت کا شرف بھی حاصل نہیں ہوا تھا کہ اس اعزاز سے نواز دیا گیا ہوں۔‘‘ یہی وہ فنائیت ہے جو حاصل ہے اس طریق کا کیونکہ حق تعالیٰ اس سے ہی راضی ہوتے ہیں۔ بقول حکیم الامتؒ اس طریق میں یعنی حق تعالیٰ کو راضی کرنے کے راستے میں اپنی ناکامی کا یقین ہی کامیابی کی دلیل ہے۔


حضرت عارفی ؒ سے اصلاحی تعلق

۱۹۶۱ ء میں مفتی محمد حسن صاحب ؒ کے وصال کے بعد حضرت ؒ نے حضرت عارفی ؒ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا اور ایک مبتدی کی طرح اپنی اصلاح میں برسوں لگے رہے۔ حضرتؒ حرمین شریفین کی شدید محبت کی وجہ سے یا کسی غیبی الہامی امر کی وجہ سے کم و بیش ہر سال حج پر تشریف لے جاتے تھے۔ ایک بار کسی محتاج کی سخت ضرورت کا پتہ چلا تو سب رقم اس محتاج کو دیکر حج کے سفر کو منسوخ کر دیا۔ حضرت عارفی ؒ کو یہ معلوم ہوا تو اپنے پاس ٹھیرا لیااور جتنا وقت حج میں لگتا یعنی چالیس دن حضرت ؒ اپنی اصلاح کے لئے اپنے شیخ ثانی کی خدمت میں رہے۔ حضرت عارفی ؒ نے بھی خلعت خلافت سے نوازا۔حضرت عارفی ؒ حضرت ؒ سے محبت بھی کرتے اور خاص لحاظ بھی فرماتے۔ حضرت عارفی ؒ کے مریدوں میں حضرت وہ واحد شخصیت تھے جن کو رخصت کرنے حضرت باہر گاڑی تک تشریف لیجاتے۔


حضور ﷺ سے تعلق خاص

بابانجم احسن صاحبؒ جوحکیم الامت ؒ کے مجاز صحبت اور حضرت عارفی ؒ کے خاص دوستوں میں تھے حضرت ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب ؒ کے مقام خاص سے واقف تھے۔ حضرت عارفی ؒ جب حج کے لئے تشریف لے گئے تھے تو کئی اہل اﷲساتھ تھے۔ ان میں بابا نجم احسن صاحب ؒ بھی تھے۔ جب مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب ؒ کے خاص دوست حضرت نصرت علی صدیقی صاحبؒ بھی ساتھ تھے۔ حضرت نصرت علی صدیقی صاحب ؒ نے خود اس مؤلف ناکارہ کو بتایا کہ جب مواجہ شریف پر سلام عرض کر نے پہنچے اور حضرت ؒ نے سلام عرض کیاتو حضور ﷺ کا جواب بلند آواز سے تھا۔ اس پر بابا نجم احسن صاحبؒ نے بے ساختہ فرمایاکہ ڈاکٹر حفیظ اﷲ صاحب کے سلام کاجواب سنا آپ نے!


ہمت کا پہاڑ

حضرت ؒ کی ہمت ابتدائے عمر سے ہی عجیب تھی۔ ایک بار طالب علمی کے زمانے میں اپنے والدین کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ بس نہیں ملی تو اپنی بائیسکل لیکر نکل کھڑے ہوئے اور دن بھر مشکلات اٹھاتے سفر کر کے شام یا رات منزل مقصود پر پہنچے تو دونوں پیر بہت سوج گئے تھے۔ حضرت ؒ نے یہ قصہ اس ناکارہ کو سناکر فرمایا کہ ہمت وہ چیز ہے کہ اسی سے سب کام ہوتے ہیں۔ حضرتؒ کی ہمت بزرگوں کی صحبت میں اور قوی ہوتی گئی۔حضرت عارفی ؒ نے ایک بار فرمایا کہ ’’ ڈاکٹر حفیظ اﷲ صاحب ہمت کا پہاڑ ہیں۔‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ؒ کی ہمت کے واقعات اب شاید کسی کو سمجھ میں بھی نہ آئیں۔ ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار حج کے بعد بیس دن کے مکہ مکرمہ کے قیام میں حضرت ؒ نے ۴۱ عمرے کئے اور دوسرے معمولات اور والدین کی خدمت الگ۔ حضرت جو ارادہ کراتے ہمت کر کے اسے ضرور پورا کرتے۔ یہ علامت ہے صدق کی۔ ہمیں ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہو جانے کا حکم ہے۔


مولانا مسیح اﷲ جلال آبادی ؒ حضرت کے آنسو پی گئے

حضرت عارفی ؒ کے وصال کے بعد حضرت ؒ بڑھاپے اور گھٹنوں کی تکلیف اور دوسرے عوارض کے باوجود ہندوستان مولانا مسیح اﷲ جلال آبادی ؒ کے پاس تشریف لے گئے اور جب تنہائی میں ملاقات کا موقع ملا تو بیتاب ہو کر رونے لگے ، بار بار کہتے کہ میرا آخرت میں کیا بنے گا اور روتے رہے۔ حضرت ؒ کے آنسو مولانا ؒ کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر گرتے رہے ۔ان آنسوؤں کی قدرو قیمت حق تعالیٰ کو ہی معلوم ہو گی۔ مولانا ؒ نے اس کی یہ قدر کی کہ جو قطرے ان آنسوؤں کے ہتھیلی پر جمع ہو گئے تھے ان کو وہ اپنی مغفرت کا ذریعہ سمجھ کر پی گئے اور اپنی طرف سے اجازت بیعت دے کر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ شریعت ان کی یعنی حضرت ؒ کی فطرۃ ثانیہ بن چکی ہے۔


مادر زاد ولی

حضرت ؒ کے دل میں تقویٰ راسخ تھا۔ شاید ہی کسی نے زندگی بھر ان سے کوئی گناہ سرزد ہوتے دیکھا ہو۔ گھر کے افراد کا بیان ہے کہ ساری عمر ہم نے ان کو گناہ کرتے نہیں دیکھا۔ حضرتؒ کے والد صاحبؒ نے حضرت مولانا حبیب اﷲ صاحبؒ اور حضرت مفتی محمد حسنؒ سے فرمایا کہ’’ یہ بچہ مادرزاد ولی معلوم ہوتا ہے جب سے یہ پیدا ہوا ہے میں نے اس کو گناہ کرتے نہیں دیکھا۔‘‘


نفس مطمئنہ

حضرت ؒ نے ایک مرتبہ اپنے ایک بہت قریبی رازدان سے فرمایا کہ " الحمدﷲ بہت عرصہ سے میرا نفس کبھی اتباع شریعت کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ " اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی رائے کو فناء کر کے اپنے شیوخ کے بتائے ہوئے طریقے سے نفس کے خلاف مسلسل مجاہدات سے تزکیہ نفس کامل ہو گیا تھا اور حضرت ؒ کا نفس، نفس مطمئنہ کے درجہ کو پہنچا ہوا تھا۔


حکیم الامت ؒ کی جھلک

حضرت ؒ کی ہر حالت سے حکیم الامت ؒ کی جھلک آتی تھی۔ حضرت عارفی ؒ نے ایک مرتبہ سکھر تشریف آوری کے موقعہ پر فرمایا کہ ’’ سکھر چھوٹا تھانہ بھون ہے یہاں آکر تھانہ بھون کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔‘‘ حضرت عارفی ؒ نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ ’’ڈاکٹر حفیظ اﷲ صاحب اس سلسلہ کی آبرو ہیں۔‘‘ حضرتؒ نے حکیم الامت ؒ کے تمام اصولوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اپنے مریدوں کو بھی اسکی تاکید کرتے۔


بیٹے بیٹیوں کی شادیاں – سنت کے مطابق

حضرت ؒ نے اپنے سب بیٹے بیٹیوں کی شادیاں سنت کے مطابق بہشتی زیور میں دی ہوئی ہدایتوں کے مطابق انجام دیں۔ عورتوں کو جمع نہیں ہونے دیا۔ شادی کی تاریخ وغیرہ کااعلان نہیں کیا ۔ایک بیٹی کے نکاح پر مسجد میں نماز کے بعد اعلان کروا دیا کہ نکاح ہو گا بس اسی سے لوگوں کو حتیٰ کہ قریبی دوستوں کو معلوم ہوا۔ اس ناکارہ کو حضرتؒ نے کئی بار تاکید فرمائی کہ اپنے بچوں کی شادیاں سنت کے مطابق جیسا کہ بہشتی زیور میں دیا ہوا ہے اس کے مطابق کرنا۔ حضرؒ ت کے وصال سے کچھ پہلے بندہ نے دریافت کیا کہ حضرت بیٹوں کی شادی ہو تو بندہ ولیمہ کس طرح کرے؟ حضرت ؒ نے فرمایا ’’اپنی اپنی ہمت ہے۔ میں نے تودینی مدرسہ میں کھانے کا انتظام کر دیا تھا۔ طلباء اور اساتذہ کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیا۔‘‘حضرت ؒ نے اپنے صاحبزادوں کی شادیوں میں جو سادگی اختیار کی اس کی پوری پوری اطلاع اپنے شیخ ثانی حضرت عارفی ؒ کو دی۔ مکتوبات محفوظ ہیں۔ حضرت عارفی ؒ نے ہر بارسنت کے مطابق شادیاں کرنے پر خوشی کا اظہار فرما کر حضرت ؒ کو مبارکباد دی۔ حضرت ؒ لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کے انتظام کو سخت ناپسند فرماتے اور کبھی ایسی شادی میں شرکت فرمانا پڑ جاتا تو نکاح کے بعد آہستگی سے کھانے کو ہاتھ لگائے بغیرواپس تشریف لے آتے۔


نظم و ضبط

حضرؒ ت اپنے نظام الاوقات کے بہت پابند تھے۔ انضباط اوقات کا اس قدر اہتمام تھا کہ کوئی کام اس سے ہٹ کر نہ ہوتا۔ کبھی کسی نے ان کو وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔ اور گھر میں ہوں یا سفر میں اپنی تمام چیزوں کے لئے جگہ مقرر فرماتے اور استعمال کے بعد واپس اسی جگہ رکھ دیتے۔ کہیں مہمان ہوتے تو اس قدر میزبان کی رعایت فرماتے کہ میزبان کو ذرا بار نہ ہوتا۔ میزبان جو جگہ حضرت کے لئے متعین فرماتا اس میں اپنے کو اس طرح مقید کر لیتے کہ گھر کے لوگوں کو پتہ بھی نہ چلتا کہ مہمان موجود ہے۔


حقوق العباد کی فکر

حضرؒ ت ہر شخص کا حق پوری طرح ادا کیا کرتے تھے۔ اس معاملے میں اپنے مشائخ، اکابر اور علماء سے مسائل معلوم کرتے رہتے۔ اور اس کے مطابق عمل کرتے اس معاملے میں مسلسل اپنا جائزہ لیتے رہتے کہ میرے ذمہ کسی کا حق رہ تو نہیں گیا۔ پاکستان میں اپنے آخری ایام میں مجمع میں اعلان تک کیا کہ’’ جہاں تک احقر کو یاد ہے سب کے حقوق سے اس وقت تک سبکدوش ہوں۔ پھر بھی اگر کسی کا حق میرے ذمہ نکلے تو آج اپنا حق وصول کرلے۔ آخرت کا معاملہ بہت سنگین ہے۔ ‘‘ حضرؒ ت کی اہلیہ دس سال بیماری کی وجہ سے معذور ہو کر صاحب فراش رہیں۔یہ طویل عرصہ حضرت ؒ نے ان کی ہر طرح سے خدمت کی۔ ان کی اور ان کے کپڑوں وغیرہ کی طہارت خود کلینک سے واپس آکر کرتے اور بہو صاحبہ سے یہ کام نہیں لیتے۔ بہو گھر میں موجود لیکن ان کو کسی کام کو نہ کہتے۔ کبھی بھوک لگتی تو ریفریجریٹر سے خود کھانا نکال کرٹھنڈا ہی کھا لیتے۔ بہو کو کھانا گرم کرنے کو بھی نہیں کہتے۔کبھی مہمان آتے اور دعوت کے بعد برتن دھونے کے جمع ہوتے تو خود برتن دھونے کھڑے ہو جاتے۔ہر وقت یہ فکر رہتی کہ اپنی ذات سے گھر کے افراد کو بھی ادنیٰ تکلیف نہ پہنچے۔ ایک مرتبہ حج میں تشریف لائے اور اس ناکارہ کے غریب خانہ پر قیام فرمایا۔ بندہ کو کسی مجبوری سے پاکستا ن جانا پڑ گیا۔ حضرت اپنے خاص خدام کے ساتھ تھے۔ صبح اشراق کے بعد سب سو جاتے تو ایسابھی ہوا کہ حضرؒ ت سب سے پہلے اٹھ کر اپنے گھٹنوں کی تکلیف کے باوجود ناشتہ تیار کرنا شروع کر دیتے بلکہ آٹا بھی گوندھ کر پراٹھے بنانے کو تیار ہوتے۔


بیوی بچوں کی تعلیم وتربیت

حقوق العباد کا ایک بڑا پہلو بیوی بچوں کی تعلیم وتربیت اور بیٹوں کو کسب معاش کے قابل بناناہے۔ اس میں بھی حضرت ؒ نے مثال قائم کردی ۔ گھر والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور اس انداز سے ان کو دین کی باتیں بتائیں اور ایسی ہمت افزئی کی کہ وہ ایک مثالی دیندار اﷲ والی خاتون اور اولاد کی تربیت میں حضرت کا دست راست بن گئیں۔ ایک بیٹے کی ایک بار جماعت چھوٹنے پربہت سختی سے تنبیہ کی اور کہا کہ خبردار میں تم سے اس وقت تک بات نہ کرونگی جب تک ایک ہفتہ پابندی سے تمہیں جماعت نہ مل جائے۔ حضرت ؒ خود بھی گھر پر ہر لمحے بچوں کی عادات اور صحبت پر نظر رکھتے اور ان کی دنیاوی تعلیم کا انتظام اور نگرانی بھی فرماتے۔ چاروں بیٹوں کو اصلاح نفس اور دینی تربیت کے لئے حکیم الامت ؒ کے سلسلہ کے کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق کرادیا۔ آخر ماشاء اﷲ سب بیٹے حضرؒ ت کی حیات ہی میں اس سلسلہ کے ایسے خلفاء میں سے ہوئے جو حکیم الامت ؒ کے اصولوں کو مضبوطی سے پکڑنے والوں میں ہیں۔


مرنے سے پہلے ورثہ کی تقسیم

حقوق العباد کی فکر مرتے دم تک تھی۔اپنی جائداد اورتمام چیزیں مدینہ منورہ ہجرت فرمانے سے قبل اولاد اور مخصوص حضرات کو حق وراثت کے مطابق تقسیم فرمادیں۔ اپنے بالکل آخری چند روز ترکہ کی تقسیم کے بارے میں صاحبزادے ڈاکٹر مکی صاحب کو مدینہ منورہ میں تاکید کرتے رہے کہ ترکہ کا سامان شریعت کے مطابق جیسے سمجھایا ہے میرے انتقال کے بعد تین دن کے اندر سب تقسیم کردینا تاکہ شریعت کا حکم پورا ہوجائے اور سب اہل حقوق کو ان کا حق مل جائے۔


بندوں کو اﷲ سے ملانے کا جذبہ

حضرتؒ کا عجیب کمال یہ تھا کہ اپنے معمولات ، ذکر اذکار،کثرت نوافل، نظام الاوقات کی پابندی اور ادئیگی حقوق کے اسقدر اہتمام کے باوجود اپنی زندگی لوگوں کی دینی خدمت کے لیے وقف فرمادی تھی ورنہ اکثر دینی خدمت میں لگنے والوں کے اپنے معمولات درہم و برہم ہو جاتے ہیں۔ حضرؒ ت کی یہ حالت بھی عین سنت کے مطابق تھی کہ ہمہ وقت یہی فکر دامنگیر رہتی کہ کس طرح سے بندوں کو اﷲ سے ملادیں، دین کا شوق دین کی عظمت دین کی محبت دلوں میں ڈال دیں ، بندگان خدا اپنے مالک اپنے خالق اپنے مربی حقیقی کو پہچان لیں اور شریعت ان کا اوڑھنا بچھونا بن جائے، ظاہراً اور باطناً سنت کی اتباع کرنے لگ جائیں۔


حریصٌ علیکم کی جھلک

سنت کی ایسی اتباع اور اخلاص کی وجہ سے لوگ مختلف شہروں سے اپنی اصلاح کرانے اور حق تعالیٰ کا صحیح تعلق حاصل کرنے کے لیے حاضرہونے لگے اور حضرتؒ مرجع خلائق بن گئے۔ اپنی عمر کے آخری پندرہ سال حضرتؒ اپنی تمام تر تکالیف اور عوارضات کے باوجود پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے مواعظ سے عوام الناس کو مستفید فرماتے رہے۔ کئی مرتبہ محبت کرنے والوں نے عرض کیا کہ آپ کو بیک وقت کئی بیماریاں میں جن میں دل کی تکلیف جیسی سخت اور خطرناک بیماری بھی ہے آپ اس قدر تکلیف وکاوش نہ فرمایا کریں۔ اس کے جواب میں فرماتے کہ اگر تکلیف برداشت کرکے کسی کا دینی فائدہ ہوجائے تو اس میں ہمارا بھی فائدہ ہے نجانے کس بہانے سے کس کی برکت سے ہم بھی بخش دیئے جائیں۔ اور حضرت عارفی ؒ کا قول نقل فرماتے کہ وہ لمحات زندگی کس کام کے جو کسی کی خدمت میں صرف نہ ہوں۔دینی فائدہ پہنچانے میں حضور ﷺ کی ’’حریصٌ علیکم‘‘ (یعنی دوسروں کو نفع پہنچانے کے بے حد خواہشمند)کا مصداق تھے۔ فرماتے تھے کہ جب بزرگوں نے ایک ذمہ داری سونپ دی ہے تو ہم کو’’ حریص علیکم‘‘ کا مصداق ہونا چاہیئے۔


تواضع کی مثال اور محبوبیت کی شان

تواضع میں حضرتؒ خود آپ ہی اپنی مثال تھے۔ بڑے تو بڑے چھوٹوں سے خود کو کم تر سمجھتے تھے۔ ہر شخص کی عزت کرتے۔ طرز تکلم اور ہر انداز سے صاف ظاہر تھا کہ اپنے کو ہر شخص سے کم سمجھتے تھے۔ اپنے کلام ،اپنے انداز اور اپنی سوچ میں اپنے آپ کوہر ایک سے قصداًنیچے کر لیتے تھے۔ تاکہ حق تعالیٰ راضی ہوجائیں اسی وجہ سے لوگوں کے دل حضرؒ ت کی طرف از خود کھنچتے تھے۔ حضرتؒ ہر شخص سے خندہ پیشانی اور محبت سے پیش آتے ہر ایک سے اپنائیت کا ایسا برتاؤ تھا کہ ہر شخص یہ سمجھتا کہ سب سے زیادہ قریبی تعلق اور محبت مجھ ہی سے ہے۔ حضرت ؒ کی تواضع کی وجہ سے حسب حدیث اور آیت قرآن پاک اﷲ تعالیٰ نے ان کو محبوبیت کی ایک عجیب شان عطا فرمائی تھی حضرتؒ کی خدمت کرنا ہر شخص اپنے لیے باعث فخر سمجھتا تھا۔ لوگ ان کے ارشاد اور حکم کے منتظر رہتے اور حکم کی تعمیل دوڑ دوڑ کر کرتے۔


مدینہ منورہ کو ہجرت

حضرتؒ کی سکھر سے مدینہ منورہ کو ہجرت محضﷲتھی۔ ۱۹۹۲ء میں حضرؒ ت کے گھر والوں کے انتقال کے بعد حضرؒ ت کے ذمہ کسی کی کفالت کے حقوق واجبہ بھی نہیں تھے۔ اولاد کی طرف سے یکسوئی تھی۔ حضرؒ ت کے دل میں حرمین شریفین کی محبت بھی شدید تھی اور وہاں ہجرت کرنے کا تقاضہ اس وجہ سے بھی تھا کہ جنت البقیع میں دفن کی تمنا اور کوشش کی ترغیب حدیث شریف میں ہے۔ ۱۹۹۵ ء میں منجانب اﷲجدہ کے سید ظفر علی صاحب کی وساطت سے سعودی عرب کی سکونت کا ویزا مل گیا۔ حضرؒت نے اپنے خاص باطنی حالات اور الہامی تقاضائے قلبی کی بناء پر فرمایا کہ اگرچہ میں اس قابل نہیں ہوں مگر منجاب اﷲ جب وہاں کے قیام کا سامان ہو گیا ہے تو انکار بے ادبی ہے۔ اور ایسی عمر میں جب حضرؒت کو اولاد کی خدمت کی ضرورت تھی اور محبین اور معتقدین سب بڑی تعداد میں پاکستان میں خدمت کرنے کو موجود تھے سارے تعلقات اور اپنے آرام و راحت کو ترک کر کے اور ساری جائدا د اورمال و اسباب تقسیم کر کے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت کو حضور ﷺ سے بہت ہی محبت تھی۔ اور حضرت اس محبت کو عام طور سےظاہر نہیں کرتے تھے لیکن مدینہ منورہ کے قیام کی تڑپ دل میں لئے ہوئے تھے۔ اس تڑپ کی بے تابی اور بے قراری پر حق تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ یہ سعادت عظیمہ بھی نصیب ہوئی۔ اس وقت بھی حضرت کی شان محبوبیت ظاہر ہوئی۔ مدینہ منورہ ہجرت کے وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ زیارت کے لیے آتے آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ روتے۔ سکھر ایئرپورٹ پر یوں لگتا تھا جیسے سارا سکھر شہر محبت اور عقیدت سے امڈ آیا ہے۔


مدینہ منورہ کا قیام

مدینہ منورہ میں حضرؒ ت کے گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے وھیل چیئر کے بغیر نقل و حرکت مشکل تھی ۔ حضرؒ ت کے میزبان حاجی محمد دین قریشی صاحب اور ان کے اہل خانہ دل و جان سے حضرؒ ت کی خدمت کو تیار رہتے اور پابندی سے حضرؒ ت کو ظہر میں اور پھر عصر کے بعد مسجد نبوی پہنچانے کا انتظام فرماتے۔ حضرؒ ت عشاء تک کا وقت پابندی سے مسجد نبوی میں ریاض الجنۃ میں گزارتے اور سارا وقت عبادت میں صرف کرتے۔ ہر ماہ مکہ مکرمہ کا سفر کر کے عمرہ کا بھی معمول تھا۔ جدہ بھی تشریف لے جاتے اور وہاں جو محبین ومعتقدین جناب سید ظفر علی صاحب کے ہاں جمع ہو جاتے ان کووعظ ونصیحت فرماتے۔ مدینہ منورہ قیام کے دوران حضرتؒ پر دل کا دورہ پڑا اور علاج کے لئے ہسپتال میں داخل ہوئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد اچانک فالج کا حملہ ہوا۔


پاکستان کا آخری سفر

فالج کے حملہ کے بعد حضرت کو اندازہ ہوا کہ اب آخری وقت ہے تو اہل حقوق کی خاطر پاکستان تشریف لے جانے کا ارادہ کیا مگر واپسی کے پکے ارادہ کے ساتھ۔ اس ناکارہ کو حیرت تھی کہ جنت البقیع میں دفن کے مقصد سے یہاں قیام پذیر ہونے کے بعد اس حال میں حضرت کیوں پاکستان کا سفر فرمارہے ہیں۔ کیا پتہ واپسی ہوگی یا نہیں۔ حضرتؒ نے خود بعد واپسی اس ناکارہ کو اور دوسروں کو ارشاد فرمایا کہ سفر میں تذبذب تھا مگر حقوق کامعاملہ تھا اور حضور ﷺ کی طرف سے جانے کی اجازت اور واپسی کی بشارت کشفاً معلوم ہو گئی تھی اس لئے جانے کی ہمت ہو گئی۔

حضرت ؒ مقام صدق پر تھے جس کا ایک مظہر یہ ہو تا ہے کہ ایسا شخص ارادہ کر کے پیچھے نہیں ہٹتا۔ چنانچہ پاکستان پہنچ کر کچھ دن قیام کیا۔سب اہل محبت نے واپسی میں عجلت نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ مگر انتہائی کمزوری اور نقاہت اور فالج کے اثرات کے باوجود سب کو تسلی دے کر پوری قوت ارادی استعمال کر کے اپنے پروگرام کے مطابق والہانہ احرام باندھ کرواپسی کے سفر پر تنہا روانہ ہو گئے۔ جب اس ناکارہ کو پتہ چلا کہ حضرؒ ت اس حالت میں واپس تشریف لانے کا ارادہ کر رہے ہیں جبکہ ان کوبے حد خدمت اور تیمارداری اور علاج کی ضرورت ہے تو بندہ بے چین ہو کر طواف کے بعد ملتزم پر پہنچا اور حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ یا اﷲ جب اس وقت شرعاً حضرت کو اپنا آرام دیکھنا چاہیے تو حضرت کیوں اپنے اوپر یہ مشقت لے رہے ہیں۔ بس اسی وقت قوت سے یہ بات دل میں آئی کہ جیسے حق تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ ہم ہیں جو ان کے دل میں جلد واپسی کا تقاضا پیدا کر رہے ہیں ۔ بس اس سے بندہ کو سکون ہو گیا۔


مدینہ منورہ واپسی

حضرؒ ت جدہ پہنچے تو خدام ائرپورٹ پر موجود تھے نقاہت اور مرض کی حالت دیکھ کر جدہ میں ایک دن آرام کا مشور ہ دیا گیا مگر قبول نہیں کیا اور اپنے پرانے معمول کے مطابق مکہ معظمہ پہنچ کرذرا بھی توقف کئے بغیر وھیل چیئر پر عمرہ کیا۔ پھر دو تین دن مکہ مکرمہ میں ہی قیام فرما کراس مؤلف ناکارہ کو خدمت کی سعادت بخشی مگر یہ ناکارہ اس کا کچھ حق اد انہ کر سکا اور حضرت ؒ کے مدینہ منورہ کے میزبان ان کو مدینہ منورہ لے گئے۔ اس سفر میں یہ ناکارہ بھی ساتھ تھا۔ حضرؒ ت مدینہ منورہ حاضری کے لئے بیتاب تھے۔ اپنی حالت مرض و ضعف کے باوجودبا ادب گاڑی میں بیٹھے رہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کرحضرؒ ت کو کچھ آرام کا موقع دینے کے لئے میزبان اقامت گاہ لے آئے مگر حضرؒ ت نے وہاں گاڑی سے اترنے سے انکار کردیا اور حضور ﷺ کی خدمت میں سلام کے لئے مسجد نبوی جانے پر اصرار کیا۔ مسجد نبوی پہنچے تو عشاء کی جماعت ہو چکی تھی۔ بعض افراد نے جماعت کرنی چاہی جیسا کہ جماعت ثانی کا وہاں دستور ہے لیکن حضرت ؒ اس وقت اس حالت میں بھی مغلوب نہیں ہوئے اور اپنے مسلک پر قائم رہے اور اشارہ کیا کہ سب اپنی اپنی نماز الگ الگ پڑھ لیں۔ نماز کے بعد مواجہ شریف کے سامنے حاضر ہو کر سلام عرض کیا پھر اپنے میزبان کے ساتھ خوش خوش اقامت گاہ تشریف لے آئے۔


دار فانی سے کوچ

حضرؒ ت کو فالج کے اثر اور ضعف کی وجہ سے بہت خدمت کی ضرورت تھی۔ میزبان کی طرف سے بھی سب انتظامات تھے ملازم خدمت کے لئے متعین تھا لیکن پھر بھی ایک اپنے آدمی کی ہر وقت موجودگی کی ضرورت تھی۔ جدہ کے سید ظفر علی صاحب جسقدر ممکن ہوتاملازمت سے چھٹی لیکر آجاتے اور حضرتؒ کے ساتھ موجود رہتے۔ چندہفتہ بعد ہی صاحبزادے جناب ڈاکٹر کریم اﷲمکی صاحب اپنے محبوب والد اور شیخ ثانی کی خدمت میں پہنچ گئے اور آخر وقت تک ساتھ رہے۔ ۱۹؍فروری ۲۰۰۰ ء بمطابق ۱۳؍ذی قعدہ ۱۴۲۱ ھ بروز ہفتہ مدینہ منورہ کے وقت کے مطابق دن کے تقریباً دس بجے اپنے معمولات پورا کرتے ہوئے دار فانی سے کوچ فرمایا ۔ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں نماز جنازہ پڑھی گئی اورجنت البقیع میں جگہ نصیب ہوئی۔ حق تعالیٰ انکو اپنی رحمت خاص سے نواز دیں اور ان کے تمام منسوبین اور متعلقین پر اپنا فضل خاص فرما دیں، آمین۔