"مری زیست کا حال کیا پوچھتے ہو نہ پیری نہ طفلی نہ اس میں جوانی جو کچھ ساعتیں یادِ دلبر میں گذریں وہی ہیں وہی میری کل زندگانی"
حضرت خواجہ مجذوب صاحبؒ کے ان اشعار سے حضرت والا جناب نواب محمد عشرت علی خان قیصر صاحب قدس سرہ کے باطنی حال کا خاکہ کھینچ جاتا ہے ۔ بے شک حضرت والا کی فنائیت، عاجزی، شکستگی، سادگی اور حق تعالیٰ کی محبت سے لبریز اور یادِ حق میں ہر دم مشغول دل کا حال ان اشعار سے خوب واضح ہے۔
خاندانی دینداری
حضرت والا ماہ رجب ۱۳۳۸ ھ میں قصبہ مینڈھو ضلع علیگڑھ میں پیدا ہوئے۔حضرت کے والد صاحب ؒ کا نام محمد مسعود علی خان ؒ تھا۔ حضرت کے دادا کا نام نواب لیاقت حسین خان ؒ اور پر دادا کا نام چودھری تفضّل ؒ تھا۔ حضرت کے دادا نواب لیاقت حسین خان ؒ اپنے علاقہ کے رئیس تھے لیکن اس کے باوجود اللہ والے تھے ۔ دین پر عمل اور علم و فہم میں اس قدر آگے تھے کہ اپنے وقت کے ابوحنیفہ، اور اپنے دور کے جنید وشبلی سمجھے جاتے تھے۔ مدرسہ دیوبند کی اولین مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ حضرت گنگوہی ؒ سے بیعت اور ان کی صحبت بابرکت کے باعث اتباع سنت اور شرک وبدعت کو مٹانے میں پیش پیش رہے۔ اولیاء سلف کا پورانمونہ تھے۔ اپنی رہائش گاہ سے متصل مسجد، مدرسہ اور خانقاہ بھی تعمیر کرائی تھی۔ حضرت والا کی دادی مرحومہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی ؒ سے بیعت تھیں۔ ولادت کے وقت دادا مرحوم نے کان میں اذان واقامت کہی اوردعاء کی کہ حق تعالیٰ کامل مومن اور صالح مسلمان بنادے۔
تعلیم و تربیت
حضرت والاکے دادا مرحوم نے مینڈھو میں مدرسہ عربیہ یوسفیہ قائم کیا تھا ۔ اس مدرسہ میں اساتذہ دیوبند اور تھانہ بھون سے بلائے جاتے تھے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اﷲ مرقدہٗ نے اپنی آپ بیتی میں مینڈھو کے مدرسہ کا ذکر کیا ہے۔ مدرسہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا حبیب احمد صاحب کیرانوی ؒ کو حکیم الامتؒ نے مقرر کیا تھا۔ حضرت والا کی ابتدائی دینی تعلیم اسی مدرسہ میں ہوئی۔ والد مرحوم کے بوجہ سرکاری ملازمت کے صوبہ یوپی کے مختلف اضلاع میں تبادلے ہوتے تھے اس لئے یہ طے ہوا کہ والدین کے ساتھ گھر پر ہی اساتذہ کو رکھ کر تحصیل علوم دین کی جائے۔ اس کے لئے حکیم الامتؒ سے رجوع کیا گیا تو حکیم الامتؒ نے مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی ؒ کے بڑے صاحب زادے مولانا عمر احمد عثمانی تھانوی ؒ کو متعین کیا اور والدہ کی درخواست پر حکیم الامتؒ نے حضرت والا کی بسم اﷲ تفسیر میں جلالین سے، فقہ میں ہدایہ اول اور حدیث میں مُوَطَّا امام مالک سے کرائی۔
حضرت کے والد ماجد
حضرت ؒ کے والد ماجد مرحوم ومغفور محمد مسعود علی خان سرکاری ملازم تھے آخر میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے اور کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ طویل علالت کے بعد پنج شنبہ ۷؍شوال ۱۳۹۷ ھ کو وفات پائی۔ اس طویل علالت کے دوران جومعذوری تھی اس میں حضرت والا اپنے ہاتھوں سے اپنے والد کی خدمت کرتے اور طہارت وغیرہ کراتے۔ ایک بار جب حضرت والا اپنے والد مرحوم کی بیماری کا اس ناکارہ کو بتا رہے تھے اور یہ کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ان کو بیماری میں آبدست کراتے تو بندہ نے دریافت کیا کہ آپ کو اس میں گھِن نہیں آتی تھی؟ تو فوراً فرما یا ، نہیں ، بالکل نہیں۔ حضرت والا کے والد ماجد ؒ کی وفات پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے ماہنامہ بینات میں جو مضمون تحریر فرمایا تھا وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’افسوس کہ ہمارے محترم کرم فرما جناب عشرت علی قیصر کے والد محترم جناب محمد مسعود علی صاحب طویل علالت کے بعد پنج شنبہ ۷؍شوال ۹۷ھ کو واصل بحق ہوئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون، مرحوم کی بعض صفات وکمالات دیکھ کر رشک آتا تھا کہ اس پُر آشوب دور میں قوت ایمان کے ایسے دل کش نمونے موجود ہیں۔ حدیث بخاری شریف میں جن سات اشخاص کے بارے میں لسان نبوت سے یہ بشارت سنی تھی اور پڑھی تھی کہ سات اشخاص قیامت کے روز میدان حشر میں عرش عظیم کے سایہ تلے ہوں گے۔ان میں ایک شخص کے بارے میں یہ الفاظ ہیں ’’وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ‘‘ کہ ایک شخص وہ ہے جس کا دل ہر وقت مسجد میں رہتا ہے۔ پہلی مرتبہ اس کا مصداق مرحوم کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد کی حاضری کی فکر دامنگیر رہتی تھی۔ نماز پڑھ کر آتے ہی دوبارہ دوسری نماز کی فکر کا شدید تقاضا شروع ہوجاتا، بیماری اور بے ہوشی کے عالم میں بھی مسجد جانے کی فکر اور تقاضا رہا۔ اس آخر عمر میں مسجد بہت پہلے پہنچتے تھے، خود اذان واقامت کی خدمت انجام دیتے تھے، دوسری قابلِ غبطہ (اور قابلِ رشک) بات یہ دیکھی کہ ہر وقت زبان پر ذکراﷲ جاری رہتا۔ حدیثِ نبوی میں ہے
’’لاَ یَزَالُ لِسَانُکَ رَطَباً مِّنْ ذِکْرِاﷲِ‘‘
کہ تمہاری زبان اﷲ کی یاد سے ہر وقت تر وتازہ رہے‘‘ اس حدیث کا مصداق آپ کی ذاتِ گرامی کو دیکھا۔ حق تعالیٰ درجاتِ عالیہ جنت الفردوس میں نصیب فرمائے اور بال بال مغفرت فرمائے اور اس جانکاہ حادثہ میں ہمارے کرم فرما قیصر صاحب کو اور ان کی بقیہ اولاد کو صبر جمیل اور اجرِ جزیل نصیب فرمائے اور تمام پسماندگان کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین‘‘
حضرت والا کے والد ماجد ؒ کے حق میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ جیسی عظیم شخصیت کے ان تعریفی کلمات سے ظاہر ہے کہ ان کا کتنا اعلیٰ درجہ تھا۔
حضرت والا کی والدہ ماجدہ
حضرت والا کی والدہ ماجدہ کو بھی اﷲ تعالیٰ نے دینداری میں خدادا د صلاحیتیں عطا فرمائی تھی۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے ۲۵؍محرم ۱۴۰۶ھ بروز جمعہ کراچی میں انتقال فرمایا، وفات پر ماہنامہ بینات میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب شہیدؒ اور حضرت نواب صاحب دامت قدس سرہ کا جو مشترکہ مضمون شائع ہوا تھا اسکا وہ حصہ نقل کیا جاتا ہے جس سے قارئین کو حضرت والا دامت برکاتہم کی والدہ ماجدہ کے ولیہ، صالحہ، کاملہ ہونے کا اندازہ ہوگا۔
’’۲۵؍محرم الحرام ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۱؍اکتوبر ۱۹۸۵ء بروز جمعہ ہمارے مخدوم ومعظم حضرت نواب عشرت علی خان قیصر صاحب کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کا بیعت وارادت کا تعلق حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ سے تھا۔ تلاوت ونوافل، اوراد واشغال، معمولات کی پابندی، اتباع سنت، دوام ذکر، جود وسخاوت اور داد ودہش کی بناء پر ’’رابعۂ دوراں‘‘کہلانے کی مستحق تھیں۔‘‘
حکیم الامتؒ سے تعلق
سن بلوغ سے قبل ہی حضرت والا اپنی والدہ کو لے کر تھانہ بھون جایا کرتے تھے کیونکہ حضرت والا کے والد صاحب مرحوم بوجہ ملازمت زیادہ سفر نہیں کرسکتے تھے۔کئی بار ایسا ہوا کہ حکیم الامتؒ حضرت والا کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے بلکہ ایک ہی پیالے میں حکیم الامتؒ کے ساتھ نوالہ کھایا ہے۔ حضرت والا کے پھوپھانواب جمشید علی خاں صاحب مرحوم باغپت کے رئیس تھے اور حضرت حکیم الامت رحمہ اﷲ کے خواص میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ باغپت میں نواب صاحب مرحوم کے مکان پر حکیم الامتؒ کے کئی وعظ ہوئے تھے۔’’بزم جمشید‘‘اور ’’خمخانہ باطن‘‘کے عنوان سے جو ملفوظات ہیں ان میں سے ایک میں حکیم الامتؒ نے فرمایا کہ ’’ان کے یہاں کی مستورات تو اپنے وقت کی رابعہ بصریہ ہیں۔‘‘دوران طالب علمی میں ہی حضرت والا حکیم الامتؒ سے بیعت ہوگئے تھے۔ جب حضرت والا نے پنجاب اور الٰہ آباد کے اداروں سے، جہاں دینی علوم کے امتحانات ہوتے تھے ، مولوی عالم، مولوی فاضل کی سند حاصل کی تو حکیم الامتؒ نے ان کے سر پرپگڑی باندھ کر گویا دستار بندی کر دی۔ پنجاب سے منشی، منشی عالم اور منشی فاضل کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔ دینی تعلیم کے اختتام پر علیگڑھ یونیورسٹی سے ایم۔اے اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ اس وقت حکیم الامت ؒ رحلت فرما چکے تھے۔
حکیم الامتؒ کے وصال کے بعد
حکیم الامت ؒ کے وصال کے بعد ان کے اجل خلفاء سے اصلاح ومجالست ومکاتبت کی توفیق نصیب ہوتی رہی۔ ہندوستان سے پاکستان میں سکونت ۱۹۴۸ ء میں منتقل کرنے کے بعد کراچی میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت حکیم الامت ؒ کے حسب ذیل خلفاء عظام بقید حیات تھے، حضرت مفتی اعظم محمد شفیع صاحبؒ ، حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھولپوریؒ ، حضرت عارف باﷲ ڈاکٹر عبدالحیّ عارفی ؒ ، حضرت بابا نجم احسن صاحبؒ ، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحبؒ ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی عثمانی ؒ ، حضرت حافظ عبدالولی صاحبؒ ، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی صاحبؒ ، حضرت مولانا شبیر علی صاحبؒ ، حضرت ظفر احمد صاحبؒ ، حضرت ڈپٹی علی سجاد صاحبؒ ان تمام اکابر کی صحبت وزیارت ودعائیں حضرت والا کو نصیب ہوئیں۔ الٰہ آباد میں ۱۹۴۰ ء میں حضرت خواجہ مجذوب صاحب رحمہ اﷲ کے ہاں بھی چند روز مہمان رہے۔ تقریباً چالیس سال کا عرصہ مختلف ادوار میں ان حضرات کی خدمت بابرکت میں گزرا۔
مولانا فقیر محمد صاحبؒ سے تعلق
مسیح الامت حضرت مولانا محمد مسیح اﷲ خان صاحب جلال آبادیؒ سے باضابطہ اصلاحی تعلق قائم کرنے سے پہلے حضرت نواب محمد عشرت علی خان قیصر صاحب قدس سرہ کا حضرت مولانا فقیر محمد صاحبؒ سے دیرینہ اور گہرا تعلق قائم رہا۔ حضرت مولانا فقیر محمد صاحبؒ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے اجل خلفاء میں سے تھے اور ذکر وشغل میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ حضرت ؒ کاحضرت مولانا فقیر محمد صاحب ؒ کی خدمت میں پشاور کثرت سے حاضری اور خود حضرت مولانا فقیر محمد صاحب ؒ کا آپ کے یہاں کراچی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔سفر وحضر میں حضرت نواب محمد عشرت علی خان قیصر صاحب قدس سرہ کو حضرت مولانا فقیر محمد صاحبؒ کی غیر معمولی رفاقت رہی اور حضرت والا نے اپنے شیخ کی دل وجان سے خدمت میں حصہ لیا۔ حضرت مولانا فقیر محمد صاحبؒ کی مسلسل مصاحبت ومجالست اور اصلاحی تعلق کی برکات سے حضرت والاقدس سرہ نے اپنے شیخ کے بیشتر معمولات اور انداز کو اپنا کر اپنی زندگی کا حصہ بنالیا، چنانچہ ذکر وفکر اور فنائیت اور دعا کے غیر معمولی ذوق وشوق جیسی چیزوں میں اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلنے کو اپنایا جو بحمداﷲ تعالیٰ تا حیات جاری رہا۔ جب حضرت مولانا فقیر محمد صاحبؒ نے حضرت والاقدس سرہ کی صلاحیتوں کو اپنے نور بصیرت سے بھانپ لیا اور آپ کی حالت پر اطمینان ہوگیا تو اپنی طرف سے خلافت واجازت بیعت سے درج ذیل کلمات کے ساتھ مشرّف فرمایا۔
’’جناب نواب قیصر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ۔آپ کے خط سے نور اور حالات سے عجز وانکساری معلوم ہوتی ہے، میرے قلب پر بیساختہ وارد ہوتا ہے کہ آپ کو بیعت اور تلقین کی اجازت دے دوں۔ توکلاً علی اﷲ دیتا ہوں۔ اگر کوئی بیعت کی درخواست کرے تو انکار نہ کرنا انشاء اﷲ جانبین میں برکت اور نفع ہوگا۔ اپنے دوستوں کو تلقین کیا کرو۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ آپ سے لوگوں کو دین کا بہت زیادہ نفع پہنچائے۔ آمین۔ ثم آمین، فقط سلام۔دعا گو ودعا جو مولوی فقیر محمد سرحدی۔۲۹؍جون ۱۹۷۸ ء‘‘
مسیح الامت ؒ سے تعلق
ہندوستان جب بھی جانا ہوتا مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اﷲ خان صاحب جلال آبادی ؒ کی خانقاہ میں حضرت والا قیام فرماتے ۔ مسیح الامتؒ حکیم الامتؒ کے ایک عظیم خلیفہ تھے۔ ان کی طرف سے آپ کو مندرجہ ذیل کلمات کے ساتھ خلافت واجازت بیعت حاصل ہوئی: ’’ یہ احساس عظمت نسبت مقتضی ہے کہ مسئلہ سلوک کا ہے کہ اشاعت سلسلہ میں حریص ہونا چاہئے لہٰذا کیوں نہ آپ کو بیعت کے سلسلہ میں حریص ہونے کی اجازت دی جاوے، اجازت۔ بھلا قیصر اور سلسلہ کی رونق سے خالی، اجازت بیعت۔ سرخرو۔ بفضلہ تعالیٰ۔احقر محمد مسیح اﷲ۔۱۴؍ذیقعدہ ۱۴۱۰ ھ۔‘‘
اصلاحی مجالس
حضرت والا ہر سال چند ماہ کراچی میں اور چند ماہ اسلام آباد میں قیام فرماتے تھے ۔ آپ کے شیخ حضرت مسیح الامت ؒ نے مخصوص وجوہات کی بناء پر اسلام آباد میں قیام کرنے کی طرف متوجہ فرمایا تھا، ورنہ اس سے قبل آپ کا مستقل قیام کراچی میں ہوتا تھا۔ حضرت والا کراچی واسلام آباد میں جہاں بھی قیام ہوتا ہفتہ کے مخصوص دنوں میں اصلاحی مجالس کا قیام فرماتے تھے، شروع میں اسلام آباد میں اصلاحی مجلس کا قیام آپ کے دولت خانہ پر ہوا کرتا تھا۔ بعد میں قریبی مسجد میں یہ سلسلہ منتقل کردیا گیا تھا ۔ یہ مسجد کوہسار مارکیٹ میں تھی اور حضرت ؒ نےہی اس کی تعمیر کروائی تھی اور اسکا انتظام فرماتے تھے۔آپ کا معمول یہ تھا کہ حکیم الامتؒ کے مواعظ وملفوظات سنا کر ان کی تشریح وتوضیح فرماتے تھے اور اکثر وبیشتر حکیم الامتؒ کے واقعات وارشادات ہی اصلاحی مجالس میں بیان فرماتے تھے۔ آپ کو حکیم الامتؒ کی شخصیت اور ان کی تعلیمات وہدایات سے والہانہ محبت تھی۔
دار فانی سے کوچ
حضرت والا قدس سرہ نے ۹۶ سال کی عمر پائی۔ ہفتہ ۳۰ دسمبر ۲۰۱۱ کی رات کو حضرت والا اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے اصلی گھر کو منتقل ہو گئے۔اتوار ۳۱ دسمبر کو دارالعلوم کورنگی کراچی میں نماز جنازہ حضرت مفتی اعظم مولانارفیع عثمانی صاحب مدظلہ العالی نے پڑھائی اور وہیں دارالعلوم کے قبرستان میں مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اور حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی ؒ کے قریب مدفون ہوئے۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں، آمین۔
(کتاب حالات عشرت سے ماخوذ)
Jis gunah par quran aur hadis me,
1) dunya me koi saja mukkarar na ho
2) jispar jahannam ki saja ka jikr na ho
3) jispar lanat ka jikr na ho,
4) Jo bagair toba ke dusri nekiyon ki wajah se bhi maaf ho jata hai
Aise gunah ko Sagira gunah kaha jata hai...
Magar sagira gunah ki misal chote saap jaisi hai, koi usse is liye la parwahi nahi karta ke wo chota hai,
Doosara masla is kitab me ye hai ke "Sagira gunah ko bar bar karne se woh Kabira ban jata hai" aur phir bagair toba ke maaf nahi hota....
Allahu aalamu haqiqatul haal...
please answer this question
[5:40 PM, 9/22/2019]
[8:09 AM, 9/22/2019]
ایک بزرگ عالم کا تاثر:الحمد للہ حضرت آپ نے بہت آہم موضوع پر بیان فرمایا ہے یہ اس دور کاسب سے بڑا وبائی مرض ہے اس پر اگر مزید بھی بات چیت ہوئی تو ہم متعلقین کے لیے بہت فائدہ ہو گا جبکہ اس کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھاجاتا ہے بہت سے دیندار لوگ فیس بک کو کھلے عام استعمال کرتے ہیں حالانکہ شراب کی طرح یہ اسمارٹ فون ام الخبائث ہےاچھائ تواسکےاندرہےہی نہیں کسی عالم کی تقریر چل رہی ہے درمیان میں بیہودہ اشتہار چلاتےہیں اللہ تعالیٰ اسکی تباہی سےپوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائیں
[8:08 AM, 9/22/2019]
ایک عالمہ کا تاثر:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ماشاءاللہ عجیب بیان ہے،بری صحبت کے معانی اس انداز میں پہلی مرتبہ سنے ہیں۔الحمدللہ آنکھیں کھول دیں،اس بیان کا ایک ایک لفظ آئینہ ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ والدین خود ہی بچے کے لئے بری صحبت ہیں،جب ہم بچوں کے سامنے ناجائز کام کرتے ہیں تو بچے سب سے پہلے اسی کو جواز کی دلیل بناتے ہیں اسی لئے جب بچوں کو روکا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ آپ بھی تو کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ ہمیں سچائی کے ساتھ دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بری صحبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔