You are here

مفتی عبیداللہ صاحب

اے دوست اس غریب سے اتنا خفانہ ہو شاید تو کل پکارے اور یہ بے نوا نہ ہو

حال کے ان بزرگوں میں جو گزر گئے،حضرت مولانا مفتی عبیداللہ صاحبؒ بہت ہی عجیب بزرگ تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ بہت ہی متقی تھے ،جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث تھے، مہتمم اعلیٰ تھے،بہت ذہین شخصیت تھے۔ اپنی نوجوانی میں دیوبند سے بڑے بہترین نمبروں سے اس زمانے کے مشکل معیار سے پاس ہوئے ۔ دیوبند کی تعلیم کے دوران اپنے والد صاحب مفتی محمد حسن صاحب ؒ کے ساتھ تھانہ بھون چھٹیوں میں جاتے اور ہر کتاب جو دارالعلوم دیوبند میں پڑھنی ہوتی، اس کا پہلا سبق حکیم الامت ؒ سے لیتے۔ یہ عجیب امتیاز شاید علماء کرام میں سے کسی اور کو حاصل نہ ہوا ہو۔ حکیم الامت ؒ کے آخری زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے جو مہتمم تھے،قاری محمد طیب قاسمی صاحب ؒ جو حکیم الامت ؒ کے خلیفۂ خاص تھے ان سے حضرت ؒ کو خلافت ملی تھی۔ حضرتؒ کا حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے تعلق تو تھاہی ، ان کے علاوہ حضرت مولانا سید حسین احمدمدنیؒ اور حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کے شاگردوں میں سے تھے۔اور جامعہ اشرفیہ لاہور میں 55 سال خدمات انجام دیں ، یعنی مہتمم رہے۔ خلوص بہت تھا۔ اسلام پر پورا پورا عمل کرتے تھے،ادخلو فی السلم کافۃ (اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ) کا نمونہ تھے۔ جس بات سے بھی مسلمانوں میں اختلاف اور افترق پیدا ہو اس سے بہت دور بھاگتے تھے اور خود کو سب سے کمتر سمجھتے تھے۔ یہی اصل ہے، جڑ ہے آپس میں اتفاق کی۔ حکیم الامت ؒ نے فرمایا ہے کہ اتفاق کی جڑ تواضع ہے ،یعنی اپنے کو دل ہی دل میں ہر ایک سے کم سمجھنا، جو بھی دوسرا آدمی سامنے آئے یا اس کا خیال آئے اس سے اپنے کو کم سمجھتا ہو۔ کم یعنی عقل، میں علم میں، عزت میں اور قرب الٰہی میں کم۔ یعنی ہر شخص کے مقابلہ میں وہ اپنے اس سے کم عقل، اس سے زیادہ جاہل، اس سے ذلیل اور اس سے زیادہ گناہگار سمجھتا ہو۔ اب اس سوچ کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہوگا۔اس کو کہتے ہیں تواضع۔ حضرت ؒ اس تواضع میں بہت آگے تھے۔ حضرت تواضع کی عجیب ہی تصویر تھے ۔حضرت مولاناعبیداللہ ؒ نے اپنے کو مٹایا ہوا تھا۔ آج کل کے زمانے میں ایسا عالم ایسا مفتی نہیں مل سکتا۔ نیک آدمی تھے، جھگڑے اور فساد ، اختلاف سے اپنے آپ کو بچایا ہوا تھا۔الگ تھلگ تھے اور اپنے کو سب سے کم سمجھتے تھے۔ قاری طیب صاحب ؒ کے خلیفہ مجاز تھے ، مفتی محمد حسن صاحبؒ کے بیٹے تھے اور حکیم الامتؒ سے پڑھے ہوئے اور علم وزہد میں لوہا منوائے ہوئےتھے ۔ بڑے بڑے علما ان کے علم و ذہانت کے معترف تھے۔ اس کے باوجود کبھی ایک شیخ کی حیثیت سے اپنی کوئی مجلس نہیں کی ، کسی کو مرید نہیں کیا، یا شاید کسی ایک کو کیا ہو، واللہ اعلم۔ حضرت مولانا فہیم الحسن صاحب نواسہ داماد ہیں حضرت ؒ کے ۔ میں ان کو خط ای میل سے بھیجتا تھا، وہ پرنٹ کر کے حضرت کو دے دیتے تھے اور حضرت جواب جو لکھتے یا ان سے لکھواتے تو وہ بندہ کو ای میل یا وھاٹس ایپس سے بھیج دیتے تھے۔ حضرت کے انتقال کے بعد ان سے پوچھا کہ حضرت کے خلفاء کون کون ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ کوئی خلیفہ نہیں میں نے کئی با ر ان سے پوچھا، یہ بھی عرض کیا کہ ایک صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تو ان کے خلیفہ ہیں تو فرمایا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ وہ صاحب اپنے بارے میں یہ کہتے ہیں لیکن ان کا دل رکھنے کے لیے حضرت نے ان کو ایسا کہنے سے منع نہیں فرمایا ۔اس قدر مٹی ہوئی شخصیت تھے اپنے آپ کو بالکل گمنام کر دیا تھا ۔

اور وہ واقعی امراض باطن کے ماہر تھے۔ حضرت ؒ سے اس ناکارہ کا اصلاحی تعلق ماہ صفر ۱۴۳۲( مطابق جنوری ۲۰۱۲) سے ہوا تھا اور چار سال حضرت ؒ کے انتقال تک رہا۔ یہ تعلق اس ناکارہ کو بہت ہی زیادہ نافع ہوا ۔ الحمدللہ ۔ میں خط لکھتا تھا تو حضرت ؒ کے جوابات سے تعجب ہوتا تھا ایسا جواب کہ بندہ حیران رہ جاتا، ایسا فائدہ پہنچا جو بیان سے باہر ہے۔ ان سے اصلاحی تعلق سے پہلے بھی جب بندہ لاہور جاتا تھا تو حضرت ڈاکٹر نعیم اللہ صاحب مد ظلہ العالی کا مہمان ہوتا تھا اور وہ ضرور ان کے ہاں لے جاتے تھے۔ہر بار حضرت مولانا مفتی عبید اللہ صاحب ؒ عجیب محبت اور تواضع سے پیش آتے تھے۔ ایک بار حضرتؒ نے بندہ کے حاضر ہوتے ہی فرما یا کہ " محتاج ادھر جاتا ہے جہاں اس کی حاجت پوری ہوتی ہو۔ یہ قانون ہے اللہ میاں کا۔ لیکن اگر محتاج معذور ہو جائے تو محتاج کے پاس اس کو لے آیا جاتاہے جس سے اس کی حاجت پوری ہوتی ہو۔ دیکھئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں آپ کی ملاقات کے لیے آتا لیکن میں معذور ہو گیا ہوں اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کو میرے پاس بھیج دیا۔" کم و بیش حضرت ایسی ہی تواضع ہر ملاقات کو آنے والے سے فرماتے تھے۔حضرت کی تواضع ملاحظہ فرما ئیے، اتنا بڑا عالم، مفتی، بزرگ اس قدر تواضع سے پیش آئے۔ اتنی بڑی ہستی ،شیخ کامل لیکن کیسا اپنے کومٹایا ہوا تھا۔ اسی طرح اتنی بڑی علمی شخصیت جس کو سب اہل علم تسلیم کریں لیکن ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی گفتگو سنیں تو بس اکثر وقت حکیم الامت ؒ کی باتیں اور اپنے والد مفتی محمد حسن صاحب ؒ کا ذکر۔ 2 جمادی الثانی 1437ہجری ( مطابق 11 مارچ 2016عیسوی) کو یہ عجیب و غریب شخصیت جو ہر لحاظ سے اپنے کو زندگی میں ہی فناء کئے ہوئے تھی ، اس دار فانی سے کوچ کر گئی:

گئے وہ تو کوئی بچا ، اب کہاں ہے رہیں کیسےہم ، وہ مزا اب کہا ں ہے

وہ ہادیٔ دل ، بے صدا اب کہاں ہے وہ مٹ کر جو تھا بے پتہ اب کہا ں ہے

وہ تشخیص امراض باطن کا ماہر رکھا جس نے خود کو چھپا،اب کہاں ہے

وہ مجلس وہ فرحت اثر اس کی باتیں وہ تلقین دیں، دل ربا اب کہاں ہے

وہ نامہ چلا کر سکون دل و جاں شفاء دِل ِ غمزدہ اب کہا ں ہے

انا للہ و انا الیہ راجعون