You are here

باب ۴- حقیقتِ نور

اختلافی جتنے ہیں یا رب امور
سب میں تو مجھ کو دکھا دے حق کا نور

کلام پاک میں نور کا لفظ اکثر نورِ ہدایت کے معنیٰ میں آیا ہے۔ یہ نور آنکھوں سے نظر نہیں آتا مگر اس نور کی موجودگی میں ہدایت کا راستہ صاف نظر آتا ہے اور حق وباطل کا فرق صاف سمجھ میں آتا ہے۔ یہ نور ہدایت اُن کو ہی حاصل ہوتا ہے جو اپنے نفس کے خلاف مجاہدات میں مشغول رہیں ،دنیا کے فانی ہونے کا استحضار رکھیں تاکہ زہد حاصل ہو اور ذکراللہ کی کثرت کریں۔ جب زہد اور مجاہدات سے تقویٰ قلب میں راسخ ہوجاتا ہے اور ذکراﷲ کی کثرت ہوتی ہے تو یہ نور ہدایت نفس کے رذائل کو ایسے شخص پر ظاہر کردیتا ہے۔خود اپنے عیبوں کا یہ انکشاف حق تعالیٰ کے فضل کی علامت ہے ۔ اس کے بر خلاف جب گناہوں اور دنیا کی محبت مذموم کی وجہ سے حق تعالیٰ کا قہر ہوتا ہے تو نور ہدایت بجھ جاتا ہے دل میں ظلمت آجاتی ہے اور حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ چونکہ نور کے لفظ سے اکثر دیندار بھی غلط معنیٰ لیتے ہیں اور وظیفے پڑھ کر کسی روشنی کے نمودار ہونے کی فکر میں رہتے ہیں اس لئے نورہدایت کی حقیقت بیان

کی جاتی ہے۔


 آیات نور

(۱)اﷲ ُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُم مِّن الظُّلُمٰتِ إِلَی النُّوْرِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوٓا أَوْلِیٰٓئَہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النُّوْرِ إِلَی الظُّلُمٰتِ ط أُولٰٓئِکَ أَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیہَا خٰلِدُونَ﴿۲۵۷﴾

اﷲ تعالیٰ ساتھی ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے ان کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے ساتھی شیاطین ہیں وہ ان کو نور سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔ یہ لوگ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔(سورۃ البقرہ)

(۲)یا اَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآءَ کُم بُرْھَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَآ إِلَیْکُمْ نُوراً مُّبِیناً﴿۱۷۴﴾

اے لوگو یقیناًتمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے۔(سورۃ النساء)

(۳) یا اَھلَ الکِتٰبِ قَد جَآءَ کُم رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُم کَثِیراً مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِن الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرط قَدْ جَاءَ کُم مِّنَ اﷲِ نُورٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِین ﴿۱۵﴾ یَہْدِی بِہِ اﷲُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمٰتِ إلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیہِمْ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴿۱۶﴾

اے اہلِ کتاب تمہارے پاس ہمارے یہ رسول آئے ہیں کتاب میں سے جن امور کا تم اخفاء کرتے ہو ان میں سے بہت سی باتوں کو تمہارے سامنے صاف صاف کھول دیتے ہیں اور بہت سے امور کو واگزاشت کردیتے ہیں۔ تمہارے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور ایک کتاب واضح کہ اس کےذریعہ سے اﷲ تعالیٰ ایسے شخصوں کو جو کہ رضائے حق کے طالب ہوں، سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو راہِ راست پر قائم رکھتے ہیں۔(سورۃ المائدہ )

(۴)الٓرٰقف کِتٰبٌ أَنزَلْنٰہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ إلَی النُّورِ برَبِّہِمْ إِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ﴿۱﴾

یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل فرمایا ہے تاکہ آپ تمام لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف یعنی جو ذات غالب ہے سب پر اور تمام تعریفوں والی ہے، اس کی راہ کی طرف لاویں۔(سورۃ ابراہیم)

(۵)أَوْ کَظُلُمٰتٍ فِی بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَآ أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَا وَمَن لَّمْ یَجْعَلِ اﷲ ُ لَہُ نُورًا فَمَا لَہُ مِن نُّورٍ﴿۴۰﴾

یاوہ ایسے ہیں جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے کہ اس کو ایک بڑی لہر نے ڈھانک لیا ہو اور اس کے اوپر دوسری لہر اس کے اوپر بادل اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہیں کہ اگر اپنا ہاتھ نکالے تو دیکھنے کا احتمال بھی نہیں اور جس کو اﷲ ہی نور نہ دے اس کو نور نہیں۔(سورۃ النور)

(۶)ھُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہُ لِیُخْرِجَکُم مِّنَ الظُّلُمٰتِ إِلَی النُّورِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا ﴿﴾

وہ ایسا ہے کہ وہ اور اس کے فرشتے تم پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں تاکہ تم کو تاریکیوں سے نور کی طرف لے آوے اور وہ مومنین پر بہت مہربان ہے۔(سورۃ الاحزاب)

(۷) أَفَمَن شَرَحَ اﷲ ُ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ فَہُوَ عَلٰی نُورٍ مِّن رَّبِّہِ ط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوبُہُم مِّنْ ذِکْرِ اﷲ ط أُوْلٰٓئِکَ فِی ضَلٰلٍ مُّبِین﴿۲۲﴾

سوجس شخص کا سینہ اﷲتعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا اور وہ اپنے پروردگار کے نور پر ہے کیا وہ شخص اور اہل قساوت برابر ہیں۔ سو جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے ان کے لئے بڑی خرابی ہے۔ یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔(سورۃ الزمر)

(۸) ھُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُم مِّنَ الظُّلُمٰتِ إلَی النُّورِط وَإِنَّ اﷲ َبِکُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ﴿۹

وہ ایسا ہے کہ اپنے بندہ پر صاف صاف آیتیں بھیجتا ہے تاکہ وہ تم کو تاریکیوں سے نور کی طرف لاوے۔اوربےشک اﷲتعالیٰ تمہارے حال پر بڑا شفیق مہربان ہے۔(سورۃ الحدید )

(۹)فَاٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُولِہِ وَالنُّوْرِ الَّذِیٓ أَنزَلْنَاط وَاﷲ ُبِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ﴿۸﴾

سوتم اﷲپراوراس کےرسول پر اور اس نور پر جو کہ ہم نے نازل کیا ہے،ایمان لاؤ۔(سورۃ التغابن)

(۱۰)اَﷲ ُنُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکةٍَ زَیْتُوْنةٍَ لاَّ شَرْقِیّةٍَ وَّلاَ غَرْبِیّةٍَ یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیْٓءُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط یَہْدِی اﷲ ُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط وَیَضْرِبُ اﷲ ُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ط وَاﷲ ُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴿۳۵﴾

اﷲ تعالیٰ نور (ہدایت) دینے والا ہے آسمانوں کا اور زمین کا۔ اس کے نور (ہدایت) کی حالتِ عجیبہ ایسی ہے جیسے (فرض کرو) ایک طاق ہے (اور) اس میں ایک چراغ ہے (اور) وہ چراغ ایک قندیل میں ہے (اور وہ قندیل) طاق میں رکھا ہے (اور) وہ قندیل ایسا (صاف شفاف) ہے جیسے ایک چمکدار تارہ ہو (اور) وہ چراغ ایک نہایت مفید درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے کہ وہ زیتون (کا درخت) ہے جو (کسی آڑ کے) نہ پورب رُخ ہے اور نہ پچھم رُخ ہے اس کا تیل (اس قدر صاف اور سلگنے والا ہے کہ) اگر اسکو آگ بھی نہ چھوئے تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خودبخود جل اٹھے گا (اور جب) آگ بھی (لگ گئی تب تو) نور علٰی نور ہے اور اﷲ اپنے اس نور (ہدایت) سے جس کو چاہتا ہے راہ دے دیتا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ لوگوں (کی ہدایت) کے لئے یہ مثالیں بیان فرماتا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔(سورۃ النور)


نورقلب اور نور ذکر

جو لوگ حق تعالیٰ کو راضی کرنے میں لگے ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کر کے ذکر اللہ کی کثرت کرتے ہیں، بعض اوقات ان کو، قلب میں نور کا احساس ہوتا ہے۔ حضرت حکیم الامتؒ کے ایک مرید کو ایسا ہی ہوا۔ اُن کا حال متعلق نور قلب اور حکیم الامتؒ کا جواب گرامی حسب ذیل ہے لیکن اسے پڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ یہ نور قلب، جو عیبوں کو ظاہر کر دے اور حق و باطل کی پہچان کرا دے ، گناہ کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا۔ حکیم الامت ؒ نے ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ معصیت (یعنی گناہ) کے ساتھ اعمال صالحہ تو جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ کلام پاک میں ہے:

فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیراً یَّرَہُ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہُ

(جو ذرہ برابر بھی نیکی کریگا وہ اس کو دیکھے گا اور جو ذرہ برابر بھی شر کر ے گا وہ اس کو دیکھے گا)

یعنی نیکی اور شر دونوں ہر شخص کے پاس جمع ہونگےلیکن نور قلب اور معاصی (یعنی گناہ) ایک جگہ جمع نہیں ہوتے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے تو اب وہ حال اور جواب گرامی ملاخطہ ہو:

حال: قلب کی حالت نہایت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کی برکت سے قلب میں ایک نور ہے جس کی وجہ سے مجھ کو میرے عیوب نظر آتے ہیں۔ چنانچہ پرسوں میں بیٹھا ہوا ذکر کررہا تھا اور گذشتہ گناہوں کا خیال پیش نظر تھا تو یہ معلوم ہوا کہ میرے اندر تکبر کا ایک مرض ایسا موجود ہے جس کی وجہ سے یہ سب گناہ صادر ہوئے ہوں۔ اور اس مرض ہی کے سبب سے مجھ کو دین ودنیا کے نقصانات برداشت کرنے پڑے ہیں۔ چنانچہ میں نے نہایت عجز وزاری کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے معافی چاہی اور پختہ عہد کیا ہے کہ انشاء اﷲ تعالیٰ میں کسی دین یا دنیاکے کام میں کبر نہیں کروں گا۔ اور تواضع اختیار کرنے کا اقرار بھی کرکے تواضع شروع کردی ہے، حضرت بھی دعا فرمادیں۔

تحقیق: بڑی رحمت ہے۔ بدل وجان دعا ہے۔ آپ نے بالکل ٹھیک سمجھا۔

دیکھیے، نور قلب سے ان کو اپنے عیوب نظر آئے، اور اپنا کبر بھی معلوم ہو گیا، اور ا سکے نقصانات بھی ظاہر ہوئے، اور نتیجہ اس کا اعمال کی اصلاح ہوئی۔ بغیر اصلاح اعمال کے نور قلب معتبرنہیں ہوتا۔کتاب قصدالسبیل میں ہدایت چہارم میں حکیم الامتؒ نے ذکر کے انوار کی حقیقت بتا کر تنبیہ فرمائی ہے کہ : ’’بعضے یہ سمجھتے ہیں کہ ذکرو شغل کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ کچھ انوار نظر آیا کریں گے یا کچھ آوازیں سنائی دیں گی۔ یہ محض ہوس اور نافہمی ہے کیونکہ اول تو ذکر وشغل پر ان آثار کا مرتب ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ذکرو شغل سے یہ مقصود ہے دوسرے یہ انوار و الوان و اصوات (روشنی، رنگ اور آوازیں)بعض اوقات اسی شخص کے دماغ کا تصرف ہوتا ہے عالَم غیب کے اشیاء میں سے نہیں ہوتیں تیسرے اگر بالفرض اُس عالَم کی چیزیں منکشف ہو گئیں تو اس کو کیا فائدہ۔ کسی عا لَم کے منکشف ہونے سے (حق تعالیٰ کا)قرب نہیں بڑھ جاتا۔قرب کے لئے تو طاعات موضوع ہیں (یعنی حق تعالیٰ کا قرب صرف ان کی اطاعت سے بڑھتا ہے۔) ‘‘۔ حکیم الامت ؒ کے ایک مرید نے ذکر کے دوران نور دیکھااس کی تحقیق ملاحظہ ہو:

حال: رات کو نفلیں پڑھ کر بارہ تسبیح شروع کر دیا کچھ دیر کے بعد دیکھتا ہوں کہ ساری مسجد روشن ہو گئی۔ آنکھ کھولکر دیکھا تو بھی (مسجد)روشن معلوم ہوئی۔

تحقیق: ایسے حالات اس مصلحت کے لئے بھی پیش آتے ہیں کہ سالک کو نشاط ہو اور طریق میں مشغولی سہل ہو۔

حکیم الامتؒ کے ایک اور مرید کا ایک حال اور حکیم الامت ؒ کا جواب گرامی ملاحظہ ہو:

حال : آج شب کو ذکر میں تمام بدن منور معلوم ہوتا تھا۔

تحقیق: یہ انوار ذکر ہیں۔

حال: دل یوں چاہتا ہے کہ بے کیف حضور ہو۔ انوار کے ساتھ جو حضور ہوتا ہے قلب میں خود بخود یہ بات آتی ہے کہ یہ حضور کامل نہیں۔

تحقیق: فی نفسہ یہ امر صحیح ہے لیکن جس وقت مربی حقیقی سے جو عطاء ہو اس وقت کے مناسب وہی ہوتا ہے۔ اس کے خلاف کی تمنا نہ چاہئے۔


 دعاء نور

۱)رَبَّنَا اَتمِم لَنَا نُورَنَا فَاغفِر لَنَااِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ

(الآیۃ:سورۃ التحریم ۔ آیت ۸)

اے ہمارے پروردگار!ہمارے لئے ہمارے اس نور کو آخر تک رکھ (یعنی اﷲ کو راضی کرنے کے راستے کے درمیان میں بجھ نہ جائے) اور ہماری مغفرت فرما۔ آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت عارفی ؒ نے اپنی مجلس میں اس دعاء کے بارے میں فرمایا کہ اس دعاء میں فَاغفِر لَنَاکے معنیٰ چھپا دینے کے ہیں۔ کلمہ غفر چھپانے کے معنیٰ بھی رکھتا ہے۔ یعنی نور ہدایت جو عطاء ہوا ہے وہ آخیر تک رہنمائی کرے یعنی اﷲ تک پہنچادے اور یہ نور ہم سے چھپا دیں تاکہ رہنمائی تو ہو مگرعُجب (یعنی خود پسندی) سے حفاظت رہے۔

۲) اللّٰہُمَّ اجْعَل فِی قَلبِی نوراً وَّ فِی بَصَری نُوراً وَّ فی سَمعِی نوراً وَّ عَن یَّمِینِی نوراً وَّ عَن شمالی نوراً وَّ خَلفِی نوراً وَّمِن اَمامی نوراً وَّاجعل لِی نُوراً وَّ فی عَصَبِی نوراً وَّ فِی لَحمی نوراً وَّفِی دَمِی نوراً وَّ فِی شَعرِی نوراً وَّفِی بَشَرِی نوراً وَّ فِی لِسانی نُوراً وَاجْعَل فِی نَفسِیْ نُوراً وَّ اَعظِم لِی نوراً وَّاجعَلنِی نوراً وَّاجْعَلْ من فوقی نوراً وَّمِن تحتی نوراً۔ اللّٰہُمَّ اعطنی نُوراً۔

یا اﷲ! کردے میرے دل میں نور اور میری بینائی میں نور اور میری سماعت میں نور اور میرے داہنی طرف نور اور میرے بائیں طرف نور اور میرے پیچھے نور اور میرے سامنے نور اور کردے میرے لئے ایک خاص نور اور میرے پٹھوں میں نور اور میرے گوشت میں نور اور میرے خون میں نور اور میرے بالوں میں نور اور میری زبان میں نور اور کردے میری جان میں نور اور دے مجھے نور عظیم اور کردے مجھے سراپا نور اور کردے میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور۔ یا اﷲ عطا کردے مجھے نور۔

حضور اکرم ﷺ نے یہ دعاء اپنی امت کو سکھائی۔ فجر کی نماز کے لئے نکلتے وقت اس دعاء کا پڑھنا سنت ہے۔ اس دعاء کے بارے میں حضرت عارفی ؒ نے اپنے خاص والہانہ انداز میں فرمایا کہ جب حضور ﷺ کو حق تعالیٰ نے سراجاً مُنیراً (روشن چراغ)کا لقب دیا اور ہر طرح سے منور فرمادیا تاکہ وہ بذات خود ایک روشن چراغ کی طرح ہدایت کا ذریعہ بن کر لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانے والے بن جائیں تو حضور ﷺ نے اس وقت اپنی امت کو یاد رکھا اور امت پر شفقت کے جوش میں بیتابانہ یہ دعاء کی تاکہ کوئی امتی محروم نہ رہ جائے بلکہ یہ دعا پڑھ لیا

کرے تاکہ وہ بھی منور ہوجائے۔