You are here

باب ۶- حفاظت ایمان

ہمارا سب سے اہم کام ایمان کی حفاظت ہے ۔ اسی پرہمیشہ ہمیشہ کی جنت کا انحصار ہے اور اگر خدانخواستہ ایمان چلاگیا تو ہمیشہ ہمیشہ کی دوزخ اور اسکا عذاب یقینی ہے۔ اس لئے وہ باتیں کتاب اسوۂ رسول اکرمﷺ سے، بہشتی زیور سے اور دوسری کتابوں سے لکھی جاتی ہیں جن سے عقائد کی اصلاح ہو جائے اور جن باتوں سے ایمان ختم ہو جاتاہے وہ معلوم ہو جائیں۔

 


 عقائد اسلام

عقائد پر ہی ایمان کا دارومدار ہے ۔آج کل اس سے بالکل غفلت ہے کہ اتنا بھی اہتمام نہیں سال دو سال پر ہی کبھی عقائد کو مساجد میں بیان کیا جائے یا دینی مجالس میں پڑھ کر سنایا جائے تاکہ باطل عقائد کا جو پرچار ہو رہا ہے اس کا اثر کم ہو۔اسلئے بہشتی زیور سے ان عقائد کی فہرست نقل کی جاتی ہے۔ ان کو بار بار پڑھنے اور یاد رکھنے سے ایمان کو قوت ملتی جائے گی۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ان عقائد کو ماننا ضروری ہے چاہے ہماری عقل اس کو تسلیم کرے یا نہیں کیونکہ ایمان غیب پر لانے کا حکم ہے ۔ جو ہماری سمجھ اور عقل میں آجائے بس اس کو مانیں، اس سے تو ایماختم ہو جاسکتا ہے۔

عقید ہ۱ ۔ تمام عالم پہلے بالکل ناپید تھا۔ پھر اﷲ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے موجود ہوا۔

عقیدہ۲۔ اﷲ ایک ہے وہ کسی کا محتاج نہیں نہ اُس نے کسی کو جَنا نہ وہ کسی سے جَنا گیا نہ اُس کی کوئی بی بی ہے۔ کوئی اس کے مقابل کا نہیں۔

عقیدہ۳۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

عقیدہ۴۔ کوئی چیز اس کے مثل نہیں۔ وہ سب سے نرالا ہے۔

عقیدہ۵۔ وہ زندہ ہے۔ ہر چیز پر اُس کوقدرت ہے۔ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ وہ سب کچھ دیکھتا ہے۔ سنتا ہے۔ کلام فرماتا ہے لیکن اس کا کلام ہم لوگوں کے کلام کی طرح نہیں۔ جو چاہے کرتا ہے کوئی اس کی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ وہی پوجنے کے قابل ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں۔ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ بادشاہ ہے۔ سب عیبوں سے پاک ہے۔ وہی اپنے بندوں کو سب آفتوں سے بچاتا ہے۔ وہی عزّت والا ہے۔ بڑائی والا ہے۔ ساری چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے اس کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ زبردست ہے۔ بہت دینے والا ہے۔ روزی پہنچانے والا ہے جس کی روزی چاہے تنگ کردے اور جس کی چاہے زیادہ کردے۔ جس کو چاہے پست کردے جس کو چاہے بلند کردے۔ جس کوچاہے عزّت دے جس کو چاہے ذلت دے۔ انصاف والا ہے بڑے تحمل اور برداشت والا ہے۔ خدمت اور عبادت کی قدر کرنے والا ہے۔ دُعا کا قبول کرنے والا ہے۔سَمَائی والا ہے۔ وہ سب پر حاکم ہے اُس پر کوئی حاکم نہیں ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ وہ سب کا کام بنانے والا ہے۔ اُسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ وہی قیامت میں پھر پیدا کرے گا۔ وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے۔ اس کو نشانیوں اور صفتوں سے سب جانتے ہیں۔ اُس کی ذات کی باریکی کو کوئی نہیں جان سکتا۔ گنہگاروں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جو سزا کے قابل ہیں اُن کو سزا دیتا ہے۔ وہی ہدایت کرتا ہے۔ جہان میں جو کچھ ہوتا ہے اُسی کے حُکم سے ہوتا ہے۔ بے اس کے حکم کے ذرّہ نہیں ہل سکتا۔ نہ وہ سوتا ہے نہ اُونگھتا ہے۔ وہ تمام عالم کی حفاظت سے تھکتا نہیں۔ وہی سب چیزوں کو تھامے ہوئے ہے۔ اسی طرح تمام اچھی اور کمال کی صفتیں اس کو حاصل ہیں اور بُری اور نقصان کی کوئی صفت اس میں نہیں نہ اس میں کوئی عیب ہے۔

عقیدہ۶۔اس کی سب صفتیں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی اور اس کی کوئی صفت کبھی جانہیں سکتی۔

عقیدہ۷۔مخلوق کی صفتوں سے پاک ہے۔ اور قرآن وحدیث میں بعض جگہ جو ایسی باتوں کی خبر دی گئی ہے تو اُن کے معنی اﷲ کے حوالہ کریں کہ وہی اس کی حقیقت جانتا ہے۔ اور ہم بے کھود کُرید کئے اسی طرح ایمان لاتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ اس کا مطلب ہے وہ ٹھیک ہے اور حق ہے اور یہی بات بہتر ہے۔ یا اس کے کچھ مناسب معنے لگالیں جس سے وہ سمجھ میں آجاو ے۔

عقیدہ۸۔عالَم میں جو کچھ بھلا بُرا ہوتا ہے سب کو خدا تعالیٰ اس کے ہونے سے پہلے ہمیشہ سے جانتا ہے اور اپنے جاننے کے موافق اس کو پیدا کرتا ہے۔ تقدیر اسی کا نام ہے۔ اور بُری چیزوں کے پیدا کرنے میں بہت بھید ہیں جن کو ہر ایک نہیں جانتا۔

عقیدہ۹۔ بندوں کو اﷲ تعالےٰ نے سمجھ اور ارادہ دیا ہے جس سے وہ گناہ اور ثواب کے کام اپنے اختیار سے کرتے ہیں۔ مگر بندوں کو کسی کام کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ گناہ کے کام سے اﷲ میاں ناراض اور ثواب کے کام سے خوش ہوتے ہیں۔

عقیدہ۱۰۔ اﷲ تعالیٰ نے بندوں کو ایسے کام کا حکم نہیں دیا جو بندوں سے نہ ہوسکے۔

عقیدہ۱۱۔کوئی چیز خدا کے ذمّہ ضروری نہیں وہ جو کچھ مہربانی کرے اس کا فضل ہے۔

عقیدہ۱۲۔بہت سے پیغمبر اﷲ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بندوں کو سیدھی راہ بتانے آئے اور وہ سب گناہوں سے پاک ہیں گنتی اُن کی پوری طرح اﷲ ہی کو معلوم ہے اُن کی سچائی بتانے کواﷲ تعالیٰ نے اُن کے ہاتھوں ایسی نئی نئی اور مشکل مشکل باتیں ظاہر کیں جو اور لوگ نہیں کرسکتے۔ ایسی باتوں کو معجزہ کہتے ہیں۔ اُن میں سب سے پہلے آدم علیہ السّلام تھے اور سب کے بعد حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ اور باقی درمیان میں ہوئے۔ ان میں بعضے بہت مشہور ہیں جیسے حضرت نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسحٰق علیہ السلام، اسمٰعیل علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، داوود علیہ السلام ،سلیمان علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام ،ہارون علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، الیاس علیہ السلام،الیسع علیہ السلام، یونس علیہ السلام، لوط علیہ السلام، ادریس علیہ السلام،ذوالکفل علیہ، السلام، صالح علیہ السلام، ہود علیہ السلام ،شعیب علیہ السلام۔

عقیدہ۱۳۔سب پیغمبروں کی گنتی اﷲ تعالیٰ نے کسی کو نہیں بتائی اس لئے یوں عقیدہ رکھے کہ اﷲ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے جتنے پیغمبر ہیں ہم اُن سب پر ایمان لاتے ہیں جو ہم کو معلوم ہیں اُن پر بھی اور جو نہیں معلوم اُن پر بھی۔

عقیدہ۱۴۔پیغمبروں میں بعضوں کا مرتبہ بعضوں سے بڑا ہے۔ سب سے زیادہ مرتبہ ہمارے پیغمبر محمد مصطفےٰ ﷺ کا ہے اور آپ کے بعد کوئی نیا پیغمبر نہیں آسکتا۔ قیامت تک جتنے آدمی اور جن ہوں گے آپ سب کے پیغمبر ہیں۔

عقیدہ۱۵۔ہمارے پیغمبر ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے جاگتے میں جسم کے ساتھ مکّہ سے بیت المقدس اوروہاں سے ساتوں آسمانوں پر اور وہاں سے جہاں تک اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوا پہنچایا اور پھر مکّہ میں پہنچادیا۔ اس کو معراج کہتے ہیں۔

عقیدہ۱۶۔اﷲ تعالیٰ نے کچھ مخلوقات نور سے پیدا کرکے اُن کو ہماری نظروں سے چھپادیا ہے۔ اُن کو فرشتہ کہتے ہیں۔ بہت سے کام اُن کے حوالے ہیں۔ وہ کبھی اﷲ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے۔ جس کام میں لگادیا ہے اس میں لگے ہیں۔ ان میں چار فرشتے بہت مشہور ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السّلام۔ حضرت میکائیل علیہ السّلام۔ حضرت اسرافیل علیہ السّلام۔ حضرت عزرائیل علیہ السّلام۔ اﷲ تعالیٰ نے کچھ مخلوق آگ سے بنائی ہے۔ وہ بھی ہم کو دکھائی نہیں دیتی۔ اُن کو جن کہتے ہیں۔ اُن میں نیک وبد سب طرح کے ہوتے ہیں اُن کے اولاد بھی ہوتی ہے۔ اُن میں سب سے زیادہ مشہور شریر ابلیس یعنی شیطان ہے۔

عقیدہ۱۷۔مسلمان جب خوب عبادت کرتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے اور دُنیا سے محبت نہیں رکھتا اور پیغمبر صاحب کی ہر طرح خوب تابعداری کرتا ہے تو وہ اﷲ کا دوست اور پیارا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو ولی کہتے ہیں۔ اس شخص سے کبھی ایسی باتیں ہونے لگتی ہیں جو اور لوگوں سے نہیں ہوسکتیں۔ ان باتوں کو کرامت کہتے ہیں۔

عقیدہ۱۸۔ولی کتنے ہی بڑے درجہ کو پہنچ جاوے مگر نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔

عقیدہ۱۹۔خدا کا کیسا ہی پیارا ہوجاوے مگر جب تک ہوش وحواس باقی ہوں شرع کا پابند رہنا فرض ہے۔ نماز روزہ اور کوئی عبادت معاف نہیں ہوتی۔ جو گناہ کی باتیں ہیں وہ اس کے لئے درست نہیں ہوجاتیں۔

عقیدہ۲۰۔جو شخص شریعت کے خلاف ہو وہ خدا کا دوست نہیں ہوسکتا اگر اس کے ہاتھ سے کوئی اچنبھے کی بات دکھائی دیوے یا تو وہ جادو ہے یا نفسانی اور شیطانی دھندا ہے۔ اس سے عقیدہ نہ رکھنا چاہیئے۔

عقیدہ۲۱۔ولی لوگوں کو بعض بھید کی باتیں سوتے یا جاگتے میں معلوم ہوجاتی ہیں اس کو کشف اور الہام کہتے ہیں اگر وہ شرع کے موافق ہے تو قبول ہے اور اگر شرع کے خلاف ہے تو رَد ہے۔

عقیدہ۲۲۔اﷲ اور رسول ﷺ نے دین کی سب باتیں قرآن وحدیث میں بندوں کو بتادیں۔ اب کوئی نئی بات دین میں نکالنا درست نہیں۔ ایسی نئی بات کو بدعت کہتے ہیں۔ بدعت بہت بڑا گناہ ہے۔

عقیدہ۲۳۔اﷲ تعالیٰ نے بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں آسمان سے جبرئیل علیہ السّلام کی معرفت بہت سے پیغمبروں پر اُتاریں تاکہ وہ اپنی اپنی اُمّتوں کو دین کی باتیں سنائیں۔ ان میں چار کتابیں بہت مشہور ہیں۔ توریت حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو مِلی۔ زبور حضرت داؤد علیہ السلام کو۔ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو۔ قرآن مجید ہمارے پیغمبر محمد ﷺ کو۔ اور قرآن مجید آخری کتاب ہے اب کوئی کتاب آسمان سے نہ آوے گی۔ قیامت تک قرآن کا حُکم چلتا رہے گا۔ دوسری کتابوں کو گمراہ لوگوں نے بہت کچھ بدل ڈالا۔ مگر قرآن مجید کی نگہبانی کا اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اس کو کوئی نہیں بدل سکتا۔

عقیدہ۲۴۔ہمارے پیغمبر ﷺ کو جن جن مسلمانوں نے دیکھا ہے اُن کو صحابی کہتے ہیں۔ اُن کی بڑی بڑی بزرگیاں آئی ہیں۔ اُن سب سے محبت اور اچھا گمان رکھنا چاہیئے۔ اگر اُن کے آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا سُننے میں آئے تو اُس کو بھُول چوک سمجھے۔ اُن کی کوئی بُرائی نہ کرے اُن سب میں سب سے بڑھ کر چار صحابی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ عنہ۔ یہ پیغمبرصاحب کے بعد اُن کی جگہ بیٹھے اور دین کا بندوبست کیا اس لئے یہ اوّل خلیفہ کہلاتے ہیں۔ تمام اُمّت میں یہ سب سے بہتر ہیں۔ اُن کے بعد حضرت عمر ؓ ۔ یہ دوسرے خلیفہ ہیں۔ ان کے بعد حضرت عثمان ؓ ۔ یہ تیسرے خلیفہ ہیں۔ ان کے بعد حضرت علی ؓ ۔ یہ چوتھے خلیفہ ہیں۔

عقیدہ۲۵۔صحابی کا اتنا بڑا رُتبہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی بھی ادنیٰ درجہ کے صحابی کے برابر مرتبے میں نہیں پہنچ سکتا۔

عقیدہ۲۶۔پیغمبر صاحب کی اولاد اور بیبیاں سب تعظیم کے لائق ہیں۔ اور اولاد میں سب سے بڑا رتبہ حضرت فاطمہ ؓ کا ہے۔ اور بیبیوں میں حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کا۔

عقیدہ۲۷۔ایمان جب درست ہوتا ہے کہ اﷲ ورسول ﷺ کو سب باتوں میں سچا سمجھے اور ان سب کو مان لے۔ اﷲ ورسول ﷺ کی کسی بات میں شک کرنا یا اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا ا سکے ساتھ مذاق اڑانا ان سب باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے۔

عقیدہ۲۸۔قرآن اور حدیث کے کھُلے مطلب کو نہ ماننا اور اینچ پینچ کرکے اپنے مطلب بنانے کو معنی گڑھنا بددینی کی بات ہے۔

عقیدہ۲۹۔گناہ کو حلال سمجھنے سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ ( اس عقیدہ کا بہت دھیان رکھیں۔ آجکل یہی مرض عام ہے کہ گناہ کو حلال اور جائز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ گناہ بار بار کرنے اور نادم نہ ہونے سے یہ خطرناک حال پیدا ہو جاتا ہے یا اپنا مفاد اسقدر عزیز ہوتا ہے کہ گناہ کو گناہ ماننے سے انکار پیدا ہو جاتا ہے۔(

عقیدہ۳۰۔گناہ چاہے جتنا بڑا ہو جب تک اُس کو بُرا سمجھتا رہے ایمان نہیں جاتا۔ البتہ کمزور ہوجاتا ہے۔

عقیدہ۳۱۔اﷲ تعالیٰ سے نڈر ہوجانا یا نااُمید ہوجانا کفر ہے۔

عقیدہ۳۲۔کسی سے غیب کی باتیں پوچھنا اور اس کا یقین کرلینا کفر ہے۔

عقیدہ۳۳۔غیب کا حال سوائے اﷲ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ البتہ نبیوں کو وحی سے اور ولیوں کو کشف اور الہام سے اور عام لوگوں کو نشانیوں سے بعضی باتیں معلوم بھی ہوجاتی ہیں۔

عقیدہ۳۴۔کسی کا نام لے کر کافر کہنا یا لعنت کرنا بڑا گناہ ہے۔ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت جھوٹوں پر لعنت۔ مگر جن کا نام لے کر اﷲ ورسول ﷺ نے لعنت کی ہے یا اُن کے کافر ہونے کی خبر دی ہے اُن کو کافر، ملعون کہنا گناہ نہیں۔

عقیدہ۳۵۔جب آدمی مرجاتا ہے اگر گاڑا جائے (دفن کیا جائے) تو گاڑنے کے بعد اور اگر نہ گاڑا جائے تو جس حال میں ہو اُس کے پاس دو فرشتے جن میں سے ایک کو منکر دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔ آکر پوچھتے ہیں کہ تیرا پروردگار کون ہے۔ تیرا دین کیا ہے۔ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کو پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں۔ اگر مردہ ایماندار ہوا تو ٹھیک ٹھیک جواب دیتا ہے۔ پھر اس کے لئے سب طرح کا چین ہے۔ جنت کی طرف کھڑکی کھول دیتے ہیں جس سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور خوشبو آتی رہتی ہے۔ اور وہ مزے میں پڑ کر سو رہتا ہے۔ اور اگر مردہ ایماندار نہ ہوا تو وہ سب باتوں میں یہی کہتا ہے کہ مجھے کچھ خبر نہیں۔پھر اُس پر بڑی سختی اور عذاب قیامت تک ہوتا رہتا ہے۔ اور بعضوں کو اﷲ تعالیٰ اس امتحان سے معاف کردیتا ہے مگر یہ سب باتیں مردہ کو معلوم ہوتی ہیں ہم لوگ نہیں دیکھتے جیسے سوتا آدمی خواب میں سب کچھ دیکھتا ہے اور جاگتا آدمی اُس کے پاس بے خبر بیٹھا رہتا ہے۔

عقیدہ۳۶۔مرنے کے بعد ہر دن صبح اور شام کے وقت مردے کا جو ٹھکانا ہے دکھلادیا جاتا ہے جنّتی کو جنّت دکھلا کرخوشخبری دیتے ہیں اور دوزخی کو دوزخ دکھلا کر اور حسرت بڑھاتے ہیں۔

عقیدہ۳۷۔مردے کے لئے دُعا کرنے سے کچھ خیر خیرات دے کر بخشنے سے اُس کو ثواب پہنچتا ہے اور اس سے اُس کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔

عقیدہ۳۸۔اﷲ ورسولﷺ نے جتنی نشانیاں قیامت کی بتائی ہیں سب ضرور ہونے والی ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور خوب انصاف سے بادشاہی کریں گے۔ کانا دجّال نکلے گا اور دُنیا میں بہت فساد مچاوے گا۔ اُس کے مارڈالنے کے واسطے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر سے اُتریں گے اور اُس کو مار ڈالیں گے۔ یاجوج ماجوج بڑے زبردست لوگ ہیں۔ وہ تمام زمین پر پھیل پڑیں گے اور بڑا اودھم مچاویں گے پھر خدا کے قہر سے ہلاک ہوں گے۔ ایک عجیب طرح کا جانور زمین سے نکلے گا اور آدمیوں سے باتیں کرے گا۔ مغرب کی طرف سے آفتاب نکلے گا۔ قرآن مجید اُٹھ جائے گا اور تھوڑے دنوں میں سارے مسلمان مرجائیں گے اور تمام دنیا کافروں سے بھر جائے گی اور اس کے سوا اور بہت سی باتیں ہوں گی۔

عقیدہ۳۹۔جب ساری نشانیاں پوری ہوجائیں گی تو قیامت کا سامان شروع ہوگا۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام خدا کے حکم سے صور پھونکیں گے یہ صور ایک بہت بڑی چیز سینگ کی شکل پر ہے۔ اس صور کے پھونکنے سے تمام زمین وآسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاویں گے۔ تمام مخلوقات مرجاوے گی اور جو مرچکے ہیں ان کی روحیں بے ہوش ہوجاویں گی۔ مگر اﷲ تعالیٰ کو جن کا بچانا منظور ہے وہ اپنے حال پر رہیں گے۔ ایک مدّت اسی کیفیت پر گذر جاوے گی۔

عقیدہ۴۰۔پھر جب اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ تمام عالَم پھر پیدا ہوجاوے تو دوسری بار پھر صور پھونکا جائے گا۔ اُس سے پھر سارا عالم پیدا ہوجاوے گا۔ مردے زندہ ہوجاویں گے اور قیامت کے میدان میں سب اکٹھے ہوں گے اور وہاں کی تکلیفوں سے گھبرا کر سب پیغمبروں کے پاس سفار ش کرانے جاویں گے۔ آخر ہمارے پیغمبر صاحب سفارش کریں گے۔ ترازو کھڑی کی جاوے گی۔ بھلے بُرے عمل تولے جاویں گے۔ اُن کا حساب ہوگا۔ بعضے بے حساب جنّت میں جاویں گے۔ نیکوں کا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں اور بدوں کا بائیں ہاتھ میں دیا جاوے گا۔ پیغمبر ﷺ اپنی اُمّت کو حوض کوثر کا پانی پلائیں گے۔ جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ پُل صراط پر چلنا ہوگا۔ جو نیک لوگ ہیں وہ اس سے پار ہوکر بہشت میں پہنچ جاویں گے۔ جو بد ہیں وہ اس پر سے دوزخ میں گر پڑیں گے۔

عقیدہ۴۱۔دوزخ پیدا ہوچکی ہے اس میں سانپ اور بچھو اور طرح طرح کا عذاب ہے۔ دوزخیوں میں سے جن میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ اپنے اعمال کی سزا بھُگت کر پیغمبروں اور بزرگوں کی سفارش سے نکل کر بہشت میں داخل ہوں گے۔ خواہ کتنے ہی بڑے گنہگار ہوں۔ اور جو کافر اور مشرک ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور اُن کو موت بھی نہ آئے گی۔

عقیدہ۴۲۔بہشت بھی پیدا ہوچکی ہے اور اُس میں طرح طرح کے چین اور نعمتیں ہیں۔ بہشتیوں کو کسی طرح کا ڈر اور غم نہ ہوگا۔ اور وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ نہ اُس سے نکلیں گے اور نہ وہاں مریں گے۔

عقیدہ۴۳۔اﷲ کو اختیار ہے کہ چھوٹے گناہ پر سزا دے دے یا بڑے گناہ کو اپنی مہربانی سے معاف کردے اور اُس پر بالکل سزا نہ دے۔

عقیدہ۴۴۔شرک اور کُفر کا گناہ اﷲ تعالیٰ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتا۔ اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے گا اپنی مہربانی سے معاف کردیویگا۔

عقیدہ۴۵۔جن لوگوں کا نام لے کر اﷲ اور رسول ﷺ نے اُن کا بہشتی یعنی جَنَّتی ہونا بتلادیا ہے اُن کے سوا کسی اور کے بہشتی ہونیکا یقینی حُکم نہیں لگاسکتے البتہ نشانیاں دیکھ کر گمان رکھنا اور اُس کی رحمت سے اُمید رکھنا ضروری ہے۔

عقیدہ۴۶۔بہشت میں سب سے بڑی نعمت اﷲ تعالیٰ کا دیدار ہے جو بہشتیوں کو نصیب ہوگا۔ اس کی لذّت میں تمام نعمتیں ہیچ معلوم ہوں گی۔

عقیدہ۴۷۔دنیا میں جاگتے ہوئے اﷲ کو ان آنکھوں سے کسی نے نہیں دیکھا او رنہ کوئی دیکھ سکتا ہے۔

عقیدہ۴۸۔عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا بُرا ہو مگر جس حالت پر خاتمہ ہوتا ہے اُسی کے موافق اُس کو اچھا بُرا بدلہ ملتا ہے۔

عقیدہ۴۹۔آدمی عمر بھر میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو اﷲ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہے البتہ مرتے وقت جب دَم ٹوٹنے لگے اور عذاب کے فرشتے دکھائی دینے لگیں اُس وقت نہ توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ایمان۔


 


کفریہ اور شرکیہ اعمال

جب کسی کام کے جائز یا ناجائز کا پتہ نہ ہو، علماء کرام سے معلوم کرکے عمل کیا جائے۔ کوئی کام محض اس وجہ سے نہ کیا جائے کہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں یا رائج الوقت رسم یا طور طریقہ یہی ہے۔ محقق اور متقی علماء کرام سے دریافت کرلیا جائے۔کفر اور شرک کی حسب ذیل باتیں نمونہ کے طور پر بہشتی زیور سے نقل کی جاتی ہیں۔ مکمل فہرست کے لئے بہشتی زیور پڑھیں۔

۱۔ کفر کو پسند کرنا۔ کفر کی باتوں کو اچھا جاننا۔

۲۔ کسی دوسرے سے کفر کی کوئی بات کرانا۔

۳۔کسی وجہ سے اپنے ایمان پر پشیمان ہونا کہ اگرمسلمان نہ ہوتے تو فلانی بات حاصل ہوجاتی۔

۴۔ کسی کے مر جانے پر رنج میں اس قسم کی باتیں کہنا، خدا کو بس اسی کا مارنا تھا۔ دنیا بھر میں مارنے کے لئے بس یہی تھا۔ خدا کو ایسا نہ چاہئے تھا۔ ایسا ظلم کوئی نہیں کرتا جیسا تونے کیا۔ نعو ذ باللہ۔

۵۔ خدااور رسول کے کسی حکم کو برا سمجھنا اس میں عیب نکالنا۔

۶۔ کسی نبی یا فرشتے کی حقارت کرنا۔ اُن کو عیب لگانا۔

۷۔ کسی کے ساتھ یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت ضرور خبر رہتی ہے۔

۸۔ نجومی یا جس پر جن چڑھا ہو اُس سے غیب کی خبریں پوچھنا یا فال کھلوانا پھر اُس کو سچ جاننا۔

۹۔ کسی بزرگ کے کلام سے فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا۔

۱۰۔ کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اُس کو خبر ہوگی۔

۱۱۔ کسی کو نفع نقصان کا مختار سمجھنا۔ کسی سے مرادیں مانگنا۔ روزی اولاد مانگنا۔

۱۲۔ کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔

۱۳۔ کسی کو سجدہ کرنا۔

۱۴۔ کسی کے نام کا جانور چھوڑنا یا چڑھاوا چڑھانا۔

۱۵۔ کسی کے نام کی منّت ماننا۔

۱۶۔ کسی کی قبر یا مکان کا طواف کرنا۔

۱۷۔ خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسری بات یا رسم کو مقدم رکھنا۔

۱۸۔ کسی کے سامنے جھکنا یا تصویر کی طرح کھڑا رہنا۔

۱۹۔ کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا۔

۲۰۔ جن وغیرہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے اُن کی بھینٹ دینا۔ بکرا وغیرہ ذبح کرنا۔
۲۱۔ کسی جگہ کا کعبہ کے برابر ادب وتعظیم کرنا۔

۲۲۔ کسی کے نام پر بچّہ کے کان ناک چھیدنا۔ بالی اور بُلاق (ناک میں پہننے کا زیور) پہنانا۔

۲۳- کسی کے نام کا بازو پر پیسہ باندھنا یا گلے میں ناڑا (دھاگا یا ازاربند)ڈالنا۔

۲۴۔ سہرا باندھنا۔

۲۵۔ چوٹی رکھنا۔

۲۶۔ علی بخش۔ حسین بخش۔ عبدالنبی وغیرہ نام رکھنا۔

۲۷۔ کسی جانور پر کسی بزرگ کا نام لگا کر اس کا ادب کرنا۔

۲۸۔ عالم کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا۔

۲۹۔ اچھی بری تاریخ اور دن کا پوچھنا۔

۳۰۔ شگون لینا۔

۳۱۔ کسی مہینے یا تاریخ کو منحوس سمجھنا۔

۳۲۔ کسی بزرگ کا نام بطور وظیفہ کے جپنا۔

۳۳۔ یوں کہنا کہ خدا اور رسول اگر چاہے گا تو فلانا کام ہوجاوے گا۔

۳۴۔ کسی کے نام یا کسی کےسر کی قسم کھانا۔

۳۵- کسی بزر گ کی تصویر برکت کے لیے رکھنا ور اُس کی تعظیم کرنا۔

نوٹ از مؤلف: یہ کفر اور شرک کی باتوں کا بیان تھا۔ جس تصویر کا اوپر ذکر ہے وہ کفر اور شرک میں شامل ہے، لیکن تصاویر ویسے بھی مطلقاً حرام ہیں۔ چاہے وہ کسی چیز پر بنائی گئی ہوں اورکسی بھی طریقہ سے بنائی گئی ہوں۔ ہاں عکس تصویر کے حکم میں نہیں ۔ اور عکس وہ ہے جو ذی عکس (جس کا عکس ہے) اس کے موجود ہونے سے موجود ہو، اور اس کے ہٹ جانے سے ختم ہو جائے، اور اس کی حرکت کے ساتھ حرکت کرے۔


 بدعتوں اور بُری رسموں اور بُری باتوں کا بیان

بدعتوں اور بُری رسموں کی حسب ذیل باتیں کتاب بہشتی زیور سے نقل کی جاتی ہیں۔ یہ بطور نمونہ کے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو بدعات میں شامل ہیں۔ کوئی کام یا رسم کرنے سے پہلے علماء کرام سے اس کا جائز یا ناجائز ہونا معلوم کرنا ضروری ہے۔

۱۔ قبروں پر دھوم دھام سے میلا کرنا۔ چراغ جلانا۔ عورتوں کا وہاں جانا۔ چادریں ڈالنا۔ پختہ قبریں بنانا۔ بزرگوں کے راضی کرنے کو قبروں کی حد سے زیادہ تعظیم کرنا۔ تعزیہ یا قبر کو چومناچاٹنا۔ خاک ملنا۔ طواف اور سجدہ کرنا۔ قبروں کی طرف نماز پڑھنا۔ مٹھائی، چاول، گُلگلے وغیرہ چڑھانا۔ تعزیہ علم وغیرہ رکھنا۔ اس پر حلوہ مالیدہ چڑھانا یا اس کو سلام کرنا۔

۲۔ کسی چیز کواچھو تی سمجھنا۔

۳۔ محرم کے مہینے میں پان نہ کھانا۔ مہندی نہ لگانا۔ مرد کے پاس نہ رہنا۔ لال کپڑا نہ پہننا۔ بی بی کی صحنک (فاطمہ ؓ کی نیاز کا کھانا)مردوں کو نہ کھانے دینا۔

۴۔ تیجا، چالیسواں وغیرہ کو ضروری سمجھ کر کرنا۔

۵۔ باوجود ضرورت کے عورت کے دوسرے نکاح کو معیوب سمجھنا۔

۶۔ نکاح، ختنہ، بسم اﷲ وغیرہ میں اگرچہ وسعت نہ ہو مگر ساری خاندانی رسمیں کرنا۔ (مطلب یہ ہے کہ محض رسم کی وجہ سے کوئی کام نہ کیا جائے بلکہ جائز ہے یا نا جائز یہ معلوم کیا جائے اور جائز کھانا وغیرہ بھی قرض لے کر نہ کیاجائے)

۷۔ ہولی دیوالی کی رسمیں کرنا۔ سلام کی جگہ بندگی وغیرہ کرنا یا صرف سر پر ہاتھ رکھ کر جھُک جانا۔

۸۔ دیور، جیٹھ، بہنوئی، پھوپی زاد، خالہ زاد، ۔ ماموں زاد اور چچا زاد بھائی کے سامنےیا اور کسی نامحرم کے سامنے آنا۔ (پھوپھا اور خالو عورت کے لئے اور چچی اور ممانی مرد کے لئے نا محرم ہیں۔ عورت کے لئے شوہر کے والد اور نانا، دادا کے سوا سب سسرالی مرد نامحرم ہیں اسی طرح مرد کے لئے بیوی کی والدہ، نانی دادی کے سوا سب سسرالی عورتیں نا محرم ہیں)

۹۔ دریا سے گگرا گاتے بجاتے لانا۔ ( پرانے زمانے میں عورتیں دریا سے پانی گگرا میں لاتی تھیں اور گاتے بجاتے آتی تھیں۔کیونکہ اس میں رقص ہے اور گانا ، دونوں حرام ہیں۔ اور نامحرم سنتے اور دیکھتے ہیں یہ الگ شدید گناہ ہے۔)

۱۰۔ راگ باجا۔ گانا سننا۔

۱۱۔ ڈومنیوں وغیرہ کو نچانا اور دیکھنا۔ اُس پر خوش ہوکر اُن کو انعام دینا۔

۱۲۔ نسب پر فخر کرنا یا کسی بزرگ سے منسوب ہونے کو نجات کے لئے کافی سمجھنا۔ کسی کے نسب میں کسر ہو اُس پر طعن کرنا۔

۱۳۔ جائز پیشہ کو ذلیل سمجھنا۔

۱۴۔حد سے زیادہ کسی کی تعریف کرنا۔

۱۵۔ شادیوں میں فضول خرچی اور خرافات باتیں کرنا۔ ہندؤوں کی رسمیں کرنا۔

۱۶۔ دولہا کو خلاف شرع پوشاک پہنانا۔ کنگنا سہرا باندھنا۔ مہندی لگانا۔ آتشبازی وغیرہ کا سامان کرنا۔ فضول آرایش کرنا۔

۱۷۔ عورتوں کے درمیان دولہا کو بلانا اور سامنے آجانا۔ تاک جھانک کر اس کو دیکھ لینا۔

۱۸۔ سیانی سمجھدار سالیوں وغیرہ کا سامنے آنا۔ اس سے ہنسی دل لگی کرنا۔چوتھی کھیلنا۔

۱۹۔ جس جگہ دولہا دولہن لیٹے ہوں اُس کے گرد جمع ہوکر باتیں سننا۔ جھانکنا۔ تاکنا۔ اگر کوئی بات معلوم ہوجائے تو اُس کو اَوروں سے کہنا۔

۲۰۔ مانجھے بیٹھانا اور ایسی شرم کرنا جس سے نمازیں قضا ہوجاویں۔

۲۱۔ شیخی سے مہر زیادہ مقرر کرنا۔ ( یعنی فخر اور کبر کی وجہ سے مہر زیادہ مقرر کرنا کہ مہر کم ہوا تو برادری میں ناک کٹ جائیگی)

۲۲۔ غمی میں چِلّا کر رونا۔ منہ اور سینہ پیٹنا۔ بیان کرکے رونا۔ استعمالی گھڑے توڑڈالنا۔ جوجو کپڑے اس کے بدن سے لگے ہوں سب کا دھُلوانا۔ برس روز تک یا کچھ کم زیادہ اُس گھر میں اَچار نہ پڑنا۔ کوئی خوشی کی تقریب نہ کرنا۔ مخصوص تاریخوں میں پھر غم کا تازہ کرنا۔

۲۳۔ حد سے زیادہ زیب وزینت میں مشغول ہونا (جس کا مقصد محض فیشن یا دکھلاوا ہو۔)

۲۴۔ سادی وضع کو معیوب جاننا۔ (یعنی سیدھے سادھے کپڑے وغیرہ کے استعمال کو عیب کی بات سمجھنا۔ )

۲۵۔ مکان میں تصویریں لگانا۔ (جاندار کی تصاویر حرام ہیں۔ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے یعنی اسلام کے ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں علماء حق نے کبھی کوئی اختلاف اس بارے میں نہیں کیاہے۔ جاندار کی تصاویرشیشے پر نظر آئیں یا کپڑوں پر یا کاغذ پر یا ٹی وی پر یا کمپیوٹر اسکرین پر یاکسی اور چیز پر اور نقاط پکسل سے بنائی گئی ہوں یا خطوط سے ، کسی مشین سے بنائی جائیں یا کیمرے سے کھینچی گئی ہوں یا انسان بنائے،سب حرام ہیں۔ ہاں وہ عکس جو جاندار کی حرکت کے ساتھ ساتھ بعینہٖ حرکت کرتا ہو اور جاندار کے ہٹ جانے پر ختم ہو جائے جیسے پانی، شیشے، آئینے وغیرہ میں عکس، اور براہ راست لائیو ٹی وی بروڈکاسٹ جائز ہے بشرطیکہ اس میں موسیقی کان میں پڑنے کا احتمال نہ ہو، نہ نا محرم پر نظر پڑنے کا احتمال ہو، نہ لہو و لعب والی یا گناہ والی باتیں ہوں ۔ کسی نامحرم کو لائیو ٹی وی پر دیکھنا بھی جائز نہیں۔)

۲۶۔ خاصدان، عطردان، سُرمہ دانی سلائی وغیرہ چاندی سونے کی استعمال کرنا۔

۲۷۔ بہت باریک کپڑا پہننا یا بجتا زیور پہننا۔

۲۸۔ لہنگا پہننا۔

۲۹۔(عورتوں کو) مَردوں کے مجمع میں جانا، عورتوں کو مردوں کی (یا مردوں کو عورتوں کی) وضع اختیار کرنا۔

۳۰۔ بدن گدوانا۔ ۳۱۔ خدائی رات کرنا۔ ۳۲۔ ٹوٹکہ کرنا۔

۳۳۔ محض زیب وزینت کے لئے دیوار گیری چھت گیری لگانا۔

۳۴۔ سفر کو جاتے یا (سفر سے )لَوٹتے وقت غیر محرم کے گلے لگنا یا گلے لگانا۔

۳۵۔ جینے کے لئے لڑکے کا کان یا ناک چھیدنا۔

۳۶۔ بچے کو رونے سے روکنے اور سلانے کے لئے افیون ( یا کوئی اور ایسی چیز نشہ آور کھلانا) کھلانا۔

۳۷۔ کسی بیماری میں شیر کا دودھ یا اُس کا گوشت کھلانا۔ (کسی بھی حرام چیز کو دوا بنانا جائز نہیں ہے۔ جب کوئی ایسی ضرورت ہو متقی عالم سے دریافت کیا جائے۔)


 ایمان کا ختم ہونا

جیسا اوپر بیان ہوا ہے کہ وساوس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بلا قصدہوتے ہیں، ہمارے اختیار میں نہیں ۔لیکن بالقصد زبان سے ایمان کے خلاف بات نکالنے سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ اس کو دین سے پھر جانا یا مرتد ہو جانا کہتے ہیں۔ حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب بہشتی زیور کے تیسرے حصہ میں "دین سے پھرنے کا بیان ہے" ۔ یہاں اس کونقل کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان احتیاط کریں اور زبان سے ایسی بات نہ نکالیں جو ایمان کے منافی ہو:

مسئلہ۱: اگر خدانخواستہ کوئی اپنے ایمان اور دین سے پھر گئی تو تین دن کی مہلت دی جائے گی اور جو اس کو شبہ پڑا اس شبہ کاجواب دیا جائے گا۔ اگر اتنی مدت میں مسلمان ہوگئی تو خیر نہیں تو ہمیشہ کے لئے قید کر دیں گےجب توبہ کرے گی تب چھوڑیں گے۔

مسئلہ۲:جب کسی نے کفر کا کلمہ زبان سے نکالا تو ایمان جاتا رہا اور جتنی نیکیاں اور عبادت اس نے کی تھی سب اکارت گئیں۔ نکاح ٹوٹ گیا اور اگر فرض حج کر چکی ہے تو وہ بھی ضائع ہوگیا۔ اب اگر توبہ کر کے مسلمان ہوگئی تو اپنا نکاح پھر سے پڑھواوے۔ اور پھردوسرا حج کرے۔

مسئلہ ۳:اسی طرح اگر کسی کا میاں توبہ توبہ بے دین ہوگیا تو بھی نکاح جاتا رہا۔اب وہ جب تک توبہ کر کے پھر سے نکاح نہ کرے عورت اس سے کچھ واسطہ نہ رکھے۔ اگر کوئی معاملہ میاں بیوی کا ساہوتو گناہ ہوگا۔ اور اگر زبردستی کرے تو اس کو سب سے ظاہر کردے،شرماوے نہیں، دین کی بات میں شرم کیا۔

مسئلہ۴:جب کفر کا کلمہ زبان سے نکالا تو ایمان جاتا رہا اگر ہنسی دل لگی میں کفر کی بات کہے اوردل میں نہ ہو تب بھی یہی حکم ہے جیسے کسی نے کہا کہ کیا خدا کو اتنی قدرت نہیں جو فلاں کام کردے۔ اس کاجواب دیاہاں نہیں ہے اس کے کہنےسے کافر ہوگئی۔

مسئلہ۵:کسی نے کہا کہ اٹھو نماز پڑھو، جواب دیا کہ کون اٹھک بیٹھک کرے۔ یا کسی نے روزہ رکھنے کو کہا تو جواب دیاکون بھوکا مرے یا کہا روزہ وہ رکھے جس کے گھر کھانا نہ ہو۔ یہ سب کفر ہے۔

مسئلہ ۶: کوئی گناہ کسی کو کرتے دیکھ کر کسی نے کہا خدا سے نہیں ڈرتی جواب دیا ہا ں نہیں ڈرتی تو کافر ہوگئی۔

مسئلہ۷: کسی کو برا کام کرتے دیکھ کر کہا کیاتو مسلمان نہیں ہے جو ایسی بات کرتی ہے ۔جواب دیاہاں، نہیں ہوں،تو کافر ہوگئی۔ اگر ہنسی میں کہا تب بھی یہی حکم ہے ۔

مسئلہ۸: کسی نے نمازپڑھنی شروع کی اتفاق سے اس پر کوئی مصیبت پڑ گئی اس نے کہا کہ یہ سب نماز کی نحوست ہے تو کافر ہو گئی ۔

مسئلہ۹:کسی کافر کی کوئی بات اچھی معلوم ہوئی اس لئے تمنا کر کے کہا کہ ہم بھی کافر ہوتے تو اچھا ہوتا کہ ہم بھی ایسا کرتے تو کافر ہوگئی۔

مسئلہ۱۰:کسی کا لڑکا مر گیا اس نے یوں کہا یا اللہ یہ ظلم مجھ پر کیوں کیا مجھے کیوں ستایا تو اس کے کہنے سے وہ کافرہوگئی ۔

مسئلہ۱۱:کسی نے یوں کہاکہ اگر خدابھی مجھ سے کہے تو یہ کام نہ کروں یا یوں کہا کہ جبرئیل بھی اتر آویں تو ان کا کہنا نہ مانوں تو کافر ہوگئی۔

مسئلہ۱۲:کسی نے کہا کہ میں ایسا کام کرتی ہوں کہ خدا بھی نہیں جانتاتو وہ کافر ہوگئی۔

مسئلہ۱۳:جب اللہ تعالیٰ کی یا اس کے کسی رسول کی کچھ حقارت کی یا شریعت کی بات کو برا جانا، عیب نکالا،کفر کی بات پسند کی،ان سب باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے ۔

نوٹ: اس کی بعض مثالیں مشکوٰۃ شریف کی شرح مظاہر حق سے لے کر سوال جواب کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں:

سوال: ایک شخص نے کسی کے سامنے کہا کہ آنحضرت ﷺ جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹ لیا کرتے تھے۔ اس پر سننے والے نے کہا کہ یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے، تو یہ کہنے والا مسلمان رہا یا کافر ہو گیا؟

جواب: وہ کافر ہو گیا۔ اسی طرح حضور ﷺ کی داڑھی اور وضع قطع کے بارے میں سوچ لیں۔ مسلمان تو وہ ہے جو حضور ﷺ کی ہر ہر ادا کو پسند کرتا ہے، اور ان کو نمونہ سمجھتا ہے، اور ان ہی کے جیسا بننا چاہتا ہے۔

سوال: اگرکوئی حضورﷺ کی کسی سنت پر ناراضگی، یاعدم اعتقاد، یا عدم اطمینان کا اظہار کرے گا تو وہ مسلمان رہے گا یا کافر ہو جائیگا؟

جواب: وہ کافر ہو جائیگا۔ یہ بات بہت ڈرنے کی ہے۔ سنتوں کو یوں پس پشت نہ ڈالو کہ اس پر عدم اطمینان کا اظہار ہو۔ جیسا کہ آج کل شادیوں میں ہوتا ہے۔

سوال: زید سے بکر نے کہا کہ خدا نے چار بیویاں حلال کی ہیں تو زید نے کہا کہ میں اس حکم کو پسند نہیں کرتا، تو کیا یہ کفر ہے؟

جواب: ہاں ، یہ کفر ہے، اللہ تعالیٰ کے کسی حکم یا حضور ﷺ کی شریعت کو جو پسند نہ کرے وہ کافر ہے۔

 


 بعضے بڑے بڑے گناہوں کا بیان

۱۔ خدا سے شرک کرنا۔

۱۹۔ خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا۔

۲۔ ناحق خون کرنا۔

۲۰۔ بلا عذر نماز قضا کردینا۔

۳۔ ماں باپ کو ستانا۔

۲۱۔ کسی مسلمان کو کافر یا بے ایمان کہنا۔

۴۔ زنا کرنا۔

۲۲-کسی مسلمان کو خدا کا دشمن کہنا۔

۵۔ یتیموں کا مال کھانا ۔

۲۲۔کسی مسلمان کو خدا کی مار ، پھٹکاروغیرہ کہنا۔

۶۔ لڑکیوں کو حصّہ میراث کا نہ دینا۔

۲۳۔ کسی کا گلہ شکوہ (یعنی غیبت) سننا۔

۷۔ کسی عورت کو زنا کی تہمت لگانا۔

۲۴۔ چوری کرنا۔

۸۔ ظلم کرنا۔

۲۵۔ سود لینا۔

۹۔ کسی کو اُس کے پیچھے بدی سے یاد کرنا ۔

۲۶۔ اناج کی گرانی سے خوش ہونا۔

۱۰۔ خدا کی رحمت سے نا اُمید ہونا ۔

۲۷۔ مول چُکا کر پیچھے زبردستی سے کم دینا۔

۱۱۔ وعدہ کرکے پورا نہ کرنا۔

۲۸۔ غیر محرم کے پاس تنہائی میں بیٹھنا۔

۱۲۔ امانت میں خیانت کرنا۔

۲۹۔ جُوا کھیلنا ۔

۱۳۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ چھوڑدینا۔

۳۰۔ کافروں کی رسمیں پسند کرنا۔

۱۳۔اللہ تعالی ٰ کے ایسے حکم کو نہ کرنا جو فرض ہو۔

۳۱۔ کھانے کو بُرا کہنا۔

۱۴۔ قرآن شریف پڑھ کر بھُلا دینا۔

۳۲۔ ناچ دیکھنا۔

۱۵۔ جھوٹ بولنا۔ خصوصاً جھوٹی قسم کھانا۔

۳۳۔ راگ باجا (موسیقی) سننا۔

۱۶۔ خدا کے سوا اور کسی کی قسم کھانا ۔

۳۴۔ قدرت ہونے پر نصیحت نہ کرنا۔

۱۷- مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہوایسی قسم کھانا۔

۳۵۔ کسی سے مسخراپن کرکے شرمندہ کرنا۔

۱۸- اس طرح قسم کھانا کہ ایمان پر خاتمہ نہ ہو۔

۳۶۔ کسی کا عیب ڈھونڈنا۔

 گناہوں کے بعض دُنیا وی نقصانات

۱۔ علم سے محروم رہنا۔

۱۵۔ رسول اﷲ ﷺکی طرف سے لعنت ہونا۔

۲۔ روزی کم ہوجانا۔

۱۶۔ فرشتوں کی دُعا سے محروم رہنا۔

۳۔ خدا کی یاد سے وحشت ہونا۔

۱۷۔ عقل میں فتور ہوجانا۔

۴۔خاص کر نیک آدمیوں سے وحشت ہوجانا۔

۱۸-پیداوار میں کمی ہونا۔

۵۔ اکثر کاموں میں مشکل پڑجانا۔

۱۹۔ شرم اور غیرت کا جاتا رہنا۔

۶۔ دل میں صفائی نہ رہنا۔

۲۰۔ اﷲ تعالیٰ کی بڑائی دل سے نکل جانا۔

۷۔ دل میں اور تمام بدن میں کمزوری ہوجانا۔

۲۱۔ نعمتوں کا چھِن جانا۔

۸۔ طاعت سے محروم رہنا۔

۲۲۔ بلاؤں کا ہجوم ہونا۔

۹۔ عُمر گھٹ جانا۔

۲۳۔ اُس پر شیطانوں کا مقرر ہوجانا۔

۱۰۔ توبہ کی توفیق نہ ہونا۔

۲۴۔ دِل کا پریشان رہنا۔

۱۱۔ گناہ کی برائی دل سے جاتی رہنا۔

۲۵۔ مرتے وقت منہ سے کلمہ نہ نکلنا۔

۱۲۔ اﷲ تعالٰی کے نزدیک ذلیل ہوجانا۔

۲۶۔ خدا کی رحمت سے مایوس ۔

۱۳۔دوسری مخلوق کو اس کا نقصان پہنچنا ۔

۲۷-بے توبہ مر جانا۔

۱۴۔دوسری مخلوق کا اُس پر لعنت کرنا۔

 


 

 طاعت سے دُنیا کے بعض فائدے

۱۔ روزی بڑھنا۔

۱۳۔ قرآن کا اس کے حق میں شفا ہونا۔

۲۔ طرح طرح کی برکت ہونا۔

۱۴۔ مال کا نقصان ہو تو اس سے اچھّا بدلا مل جانا۔

۳۔ تکلیف اور پریشانی دُور ہونا۔

۱۵۔ دن بدن نعمت میں ترقی ہونا۔

۴۔ مرادوں کے پورے ہونے میں آسانی ہونا

۱۶۔ مال بڑھنا۔

۵۔ لُطف کی زندگی ہونا۔

۱۷۔ دل میں راحت اور تسلّی رہنا۔

۶۔ بارش ہونا۔

۱۸۔ آئندہ نسل میں یہ نفع پہنچنا۔

۷۔ ہر قسم کی بَلا کا ٹل جانا۔

۱۹۔ زندگی میں غیبی بشارتیں نصیب ہونا۔

۸۔ اﷲ تعالیٰ کا مہربان اور مددگار رہنا۔

۲۰۔ مرتے وقت فرشتوں کا خوش خبری دینا۔

۹۔بحکم الٰہی، فرشتوں اسکے دِل کومضبوط رکھنا ۔

۲۱۔ عمر بڑھنا۔

۱۰۔ سچّی عزّت وآبرو ملنا۔

۲۲۔ افلاس اور فاقہ سے بچا رہنا۔

۱۱۔ مرتبے بلند ہونا۔

۲۳۔ تھوڑی چیز میں زیادہ برکت ہونا۔

۱۲۔ سب کے دلوں میں اس کی محبت ہوجانا۔

۲۴۔ اﷲ تعالیٰ کا غصّہ جاتا رہنا۔