You are here

باب ۵- علامات ایمان

ایمان کی علامات سے ہی انسان کو اپنے ایمان کا علم ہو سکتا ہے۔ایمان کی علامات کا معلوم ہونا اس لئے ضروری ہے کہ بندہ اپنا جائزہ لے سکے اور وساوس سے بچ سکے۔ اسی وجہ سے کلام پاک میں اور احادیث میں ایمان کی علامات بتا ئی گئی ہیں۔ ۔ اس لئے وہ باتیں کتاب اسوۂ رسول اکرمﷺ سے، بہشتی زیور سے اور دوسری کتابوں سے لکھی جاتی ہیں جن سے ایمان کی علامتیں معلوم ہو جائیں اور وہ باتیں معلوم ہوجائیں جن کا خیال رکھنا ایمان کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔


 حق تعالیٰ کی محبت

  وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ

اور ایمان والے اﷲ کی محبت میں اشد ہیں

(الاٰیۃ:سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۶۵ )

یعنی ہر مسلمان کو چاہئے کہ حق تعالیٰ کی محبت میں نہایت مضبوط ہو اور حق تعالیٰ کے برابر کسی کی محبت دل میں نہ ہو۔ حکیم الامت ؒ فرماتے ہیں کہ " محبت کی یہ مضبوطی فاسق وفاجر مسلمان میں بھی ہوتی ہے گو گناہوں کی وجہ سے دب جاتی ہے۔ امتحان کے موقع پر یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے مثلاً اگر کسی مسلمان کے سامنے کوئی شخص خدا تعالیٰ کی شان میں یا اس کے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو اگرچہ اس مسلمان کا ایمان نہایت کمزور ہو لیکن اس گستاخی کو سن کر اس قدر بے چین ہوجاتا ہے کہ ماں کی گالی سننے سے اس قدر بے چین نہیں ہوتا۔" کلام پاک میں اوراحادیث میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کا حکم بہت واضح ہے۔ جیسا پہلے بیان ہوا، محبت کی دو قسمیں ہیں ایک محبت طبعی دوسری محبت عقلی۔ محبت حق جس کے حاصل کرنے کا حکم ہے وہ محبت طبعی نہیں ہے۔ محبت طبعی کی علامت بےاختیار دل کا کھنچنا یا محبت کی کیفیات و جذبات کا دل میں اٹھنا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ غیر اختیاری ہے ، اس کا ہمیں مکلف نہیں کیا گیا ہے۔ جس محبت کو دل میں بڑھانے کا حکم ہے وہ محبت عقلی ہے یعنی حق تعالیٰ کے حکم کو ہر حال میں قابل ترجیح سمجھنا۔ جب بھی کوئی موقع ایسا آئے کہ ایک طرف نفس، یا بیوی بچے، والدین، اقارب، برادری ، مال یا عزت کے تقاضے ہیں اور دوسری طرف حق تعالیٰ کا حکم ہے تواس وقت عقل کو کام میں لا کر یہ سمجھنا اور سوچنا کہ حق تعالیٰ کا حکم ہی قابل ترجیح ہے، یہی محبت عقلی ہے۔ شریعت نے بس اسی محبت کو بڑھانے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس کا بڑھانا اختیاری ہے۔ اس محبت کو حاصل کرنے کی اور بڑھانے کی آسان تدبیر یہ ہے کہ بار باریہ سوچا جائے کہ حق تعالیٰ کے حکم کو ہر بات پر ترجیح ہونی چاہیے جس کا نتیجہ مکمل اتباع سنت کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کیا جائے ۔ ان دوباتوں سے جن کا حکم ویسے بھی کلام پاک میں متعدد بار آیا ہے رفتہ رفتہ حق تعالیٰ کی وہ محبت عقلی جو شرعاً فرض ہے حاصل ہو جائے گی۔اس محبت میں بندہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ مصلحتوں کی پرواہ نہیں رہتی بلکہ حق تعالیٰ کے حکم پر ہر وقت نظر رہتی ہے، حکم معلوم نہ ہو تو وہ حکم معلوم کرتا ہے اور معلوم ہو تو بجا لانے میں مستعد رہتا ہے۔


 رسول اﷲ ﷺ کی محبت

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہو گا جب تک اس کو اپنے ماں باپ اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو۔ (معارف الحدیث۔ بخاری ومسلم، کذا فی المشکوٰۃ)

اس حدیث شریف کو حکیم الامتؒ نے کتاب نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب میں بھی فصل ۳۵ میں نقل کیا ہے جو حضور ﷺ کے حقوق کے بارے میں ہے۔ یہ حدیث نقل کر کے تحریر فرما یا ہے کہ " یعنی اگر میری مرضیات اور دوسروں کی مرضیات میں تزاحم ( ٹکراؤ) ہو تو جس کو ترجیح دی جاوے اسی کے محبوب تر ہونے کی علامت ہو گی"۔حضور ﷺ کی یہی وہ محبت عقلی ہے جس کا مطالبہ شریعت ہم سے کرتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی محبت عقلی سے یہ مراد ہے کہ عقلاً یہ سمجھنا کہ حضو ر ﷺ کا بتایا ہوا طریقہ ہی قابل ترجیح ہے۔ اب چاہے شادی غمی کا طریقہ ہو، یا رہن سہن کا انداز ہو، یا معاملات، عبادات اور اخلاق سے متعلق کوئی بات ہو، یا دین کی تبلیغ کا طریقہ ہو، یا سیاست و حکومت سے متعلق معاملات ہوں۔ ہر معاملہ میں اس طریقہ کو جسے متقی اور محقق علماء حق جو مصلحت کے چکر میں نہیں ہوتے بلکہ اللہ اور رسول ﷺ کا حکم بتانے والے ہیں جس بات کو سنت کے مطابق بتائیں اسے ترجیح دے کر اختیار کر لینا اور بلا عذر سنتوں کو نہ چھوڑنا مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ یہی وہ علامت ایمان ہے جس کا مطالبہ ہم سے اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔آج کل کے نام نہاد دیندار اور اکثر تبلیغ و اشاعت دین کا دعویٰ کرنے والے اپنی معاشرت اور بالخصوس شادی غمی میں سنتوں کو ترک کر نے کو برا ہی نہیں سمجھتے ۔ حالانکہ حضور ﷺ نے صاف فرما دیا ہے کہ : لو ترکتم سنت نبیکم ﷺ لکفرتم یعنی اگر تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم نے کفر کیا۔ اور متعدد آیات قرآن اور احادیث میں حضور ﷺ کی اتباع کا حکم ہے۔ ایساشخص جس کو حضور ﷺ کی محبت واقعی حاصل ہے وہ اپنے نفس کے تقاضوں اور اپنے اہل تعلقات کی خواہشات، یا دنیاوی مصلحتوں سے مغلوب نہیں ہوتا۔


 حضور ﷺ کی سنت سے محبت

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے (کذا فی المشکوٰۃ)


 باہمی محبت اور سلام کا رواج

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ تم جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ صاحب ایمان نہ ہوجاؤ اور تم پورے مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم میں باہمی محبت نہ ہو۔ کیا میں تم کو ایک ایسی بات نہ بتلادوں کہ اگر تم اس پر عمل کرنے لگو تو تم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے اور وہ بات یہ ہے کہ تم اپنے درمیان ’’سلام‘‘ کا رواج پھیلاؤ اور اس کو عام کرو۔ (مسلم۔ معارف الحدیث)


 اﷲ ہی کے لئے محبت وبغض

حضرت مُعاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے افضل ایمان کے متعلق سوال کیا (یعنی پوچھا کہ ایمان کا اعلیٰ اور افضل درجہ کیا ہے اور وہ کون سے اعمال واخلاق ہیں جن کے ذریعہ اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے)۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بس اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے تمہاری محبت ہو اور اﷲ تعالیٰ ہی کے واسطے بغض وعداوت ہو۔ (یعنی دوستی اور دشمنی جس سے بھی ہو صرف اﷲ تعالیٰ ہی کے واسطے ہو) اور دوسرے یہ کہ اپنی زبان کو تم اﷲ تعالیٰ کی یاد میں لگائے رکھو۔ حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا کہ اور کیا ، یا رسو ل اﷲ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی وہی چاہو اور پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے اور چاہتے ہواور ان کے لئے بھی ان چیزوں کو ناپسند کرو جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو۔

(بخاری ومسلم، مسند احمد، معارف الحدیث)


 ایمان اور وفاداری

حضرت تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا دین نام ہےخلوص اور وفاداری کا ہم نے عرض کیا کہ کس کے ساتھ خلوص اور وفاداری؟ ارشاد فرمایا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ، اﷲ تعالیٰ کے رسول کے ساتھ، مسلمانوں کے سرداروں اور پیشواؤں کے ساتھ اور ان کے عوام کے ساتھ۔ (معارف الحدیث، مسلم)


 ایمان کی مٹھاس

ایمان کی مٹھاس نصیب ہو جانا بہت بڑی علامت ہے ایمان کی۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں ہوں اس کو ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس نصیب ہوگی:

۱۔ ایک وہ شخص جس کے نزدیک اﷲ اور اس کا رسول ﷺ سب ماسوا سے زیادہ محبوب ہو( یعنی جتنی محبت اس کو اﷲ اور رسول ﷺ سے ہو اتنی کسی سے نہ ہو)۔

۲۔ اور ایک وہ شخص جس کو کسی بندے سے محبت ہو اور محض اﷲ ہی کے لئے ہو (یعنی کسی دُنیوی غرض سے نہ ہو محض اس وجہ سے محبت ہو کہ وہ شخص اﷲ والا ہے)۔

۳۔ اور ایک وہ شخص جس کو اﷲ تعالیٰ نے کفر سے بچالیا ہو (خواہ پہلے ہی سے بچارکھا ہو، خواہ کفر سے توبہ کرلی اور بچ گیا) اور اس بچالینے کے بعد وہ کفر کی طرف آنے کو اس قدر ناپسند کرتا ہے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم )


 راستے سے تکلیف والی چیز ہٹادینا

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی ستّر سے بھی کچھ اوپر شاخیں ہیں ان میں سب سے اعلیٰ اور افضل تو ’’لا الٰہ الا اﷲ‘‘ کا قائل ہونا، یعنی توحید کی شہادت دینا ہے۔ اور ان میں ادنیٰ درجے کی چیز اذیت اور تکلیف دینے والی چیزوں کاراستے سے ہٹانا ہے ۔ (معارف الحدیث، بخاری ومسلم)


حیاء

اوپر جو حدیث نقل کی گئی ہے اس کے آخیر میں یہ بھی ہے کہ " حیا ءایمان کی ایک اہم شاخ ہے"۔ اورحضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، حیاء اور شرم ایمان سے پیدا ہوتی ہے اور ایمان کا نتیجہ جنت ہے اور بے حیائی اور فحش کلامی، فطرت کی درشتی( یعنی سختی) سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے۔اور ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ حیا ءاور ایمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں جب ان میں سے ایک اٹھالیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (معار ف الحدیث، مسند احمد۔ترمذی)


 اچھے کام سے خو شی اور بُرے کام سے رنج

حضرت ابواُمامہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کو اپنے اچھے عمل سے مسرت ہو اور بُرے کام سے رنج اور قلق ہو تو تم مومن ہو۔ (معارف الحدیث۔ مسند احمد)


 پڑوسی کو ایذا سے بچانا

حضرت ابوشریح خزاعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:’’قسم اﷲ تعالیٰ کی وہ مومن نہیں، قسم اﷲ تعالیٰ کی وہ مومن نہیں، قسم اﷲ تعالیٰ کی وہ مومن نہیں‘‘۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ کون مومن نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’وہ آدمی جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور آفتوں سے خائف رہتے ہوں‘‘۔ (بخاری، معارف الحدیث)


 بُری بات مٹانا

حضرت ابوسعید خُدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو کوئی بُری اور خلاف شرع بات دیکھے تو لازم ہے کہ اگر طاقت رکھتا ہو تو اپنے ہاتھ سے (یعنی زور اور قوت سے) اس کو بدلنے کی (یعنی درست کرنے کی) کوشش کرے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان ہی سے اس کو بدلنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل ہی سے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کاضعیف ترین درجہ ہے۔ (مسلم۔ معارف الحدیث)


 وسوسہ کا غیر اختیاری طور سے آنا

وسوسہ غیر اختیاری خیال ہوتا ہے۔ اس کو شیطان دماغ میں ڈالتا ہے یا یوں کہیے کہ دل میں ڈالتا ہے ۔ وساوس سے ایمان ختم نہیں ہوتا۔ وساوس کا آنا ہرگز ایمان کے منافی نہیں بلکہ ایمان کی صریح علامت ہے۔ حضرت عارفی ؒ اپنی کتاب معمولات یومیہ میں وساوس کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سب غیر اختیاری باتیں ہیں اور محض شیطانی تصرفات ہیں۔ جب تک کہ ان کے مقتضاء پر عمل نہ کیا جائے ہرگز قابل مواخذہ نہیں ہیں اور نہ ہی علامت مردودیت ہیں۔ نہ ایمان میں کمی ہوتی ہے نہ تعلق مع اﷲ میں ان سے کوئی فرق آتا ہے۔ بلکہ ان کے مکروہ اور ناگوار ہونے سے جو اذیت ہوتی ہے اس کو برداشت کرنے پر اجر ملتا ہے۔‘‘ حکیم الامتؒ نے ایک وعظ میں فرمایا ہے کہ حدیث میں ہے کہ ’’میری امت سے وسوسہ پر مواخذہ نہ ہوگا۔‘‘

مسلم شریف کی حدیث ہے کہ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں چند صحابہؓ حاضر ہوئے آپ سے پوچھا کہ ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک بُرا سمجھتا ہے کہ زبان پر لاوے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، کیا واقعی تم لوگوں نے اسے پایا ہے؟ صحابہؓ نے فرمایا، ہاں۔ حضورﷺ نے ان کو فرمایا کہ یہ صریح ایمان ہے۔

ایک اور حدیث شریف میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کبھی کبھی میرے دل میں ایسے بُرے خیالات آتے ہیں کہ جَل کر کوئلہ ہوجانا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس کو زبان سے نکالوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اﷲ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ہے جس نے اس کے معاملہ کو وسوسہ کی طرف لوٹادیا ہے یعنی وہ خیالات صرف وسوسے کی حد تک ہیں، قصداً شک کی بات سوچنے اور بدعملی کا موجب نہیں ہیں۔ (ابوداوود، معارف الحدیث)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا کہ لوگوں میں ہمیشہ فضول سوالات اور چوں وچرا کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ یہ احمقانہ سوال بھی کیا جائے گا کہ اﷲ تعالیٰ نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ پس جس کو اس سے سابقہ پڑے وہ یہ کہہ کر بات ختم کردے کہ اﷲ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر میرا ایمان ہے۔ (معارف الحدیث۔ بخاری ومسلم)


 درجہ ٔاحسان

حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے (اس وقت حضور اکرم ﷺ صحابہؓ کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرمارہے تھے) کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے اور اس شخص پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہ ہوتا تھا (جس سے خیال ہوتا کہ یہ کوئی بیرونی شخص ہے) اور اس کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نووارد کو پہچانتا نہ تھا( جس سے خیال ہوتا کہ یہ کوئی باہر کا آدمی ہے) تو یہ شخص حاضرین کے حلقہ میں سے ہوتا ہوا آیا یہاں تک کہ رسول اﷲ ﷺ کے سامنے آکر دوزانو اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آنحضرت ﷺ کے گھٹنوں سے ملادیئے اور اپنے ہاتھ حضورﷺ کے زانوؤں پر رکھ دیئے اور کہا:’’اے محمد (ﷺ) مجھے بتلائیے کہ اسلام کیا ہے ‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے (یعنی اس کے ارکان یہ ہیں کہ دل وزبان سے) تم یہ شہادت ادا کرو کہ اﷲ کے سوا کوئی اِلٰہ(عبادت وبندگی کے لائق ذات) نہیں ہے۔ اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور ماہ رمضان کے روزے رکھو اور حج بیت اﷲ کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو۔ اس نووارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا، آپ نے سچ کہا۔ اس حدیث کے راوی حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی ہے اور پھر خود تصدیق وتصویب بھی کرتا جاتا ہے۔

اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا اب مجھے یہ بتلائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اﷲ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کو اور یوم آخر یعنی روز قیامت کو حق جانو اور ہر خیر وشر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو (یہ سن کر بھی) اس نے کہا آپ نے سچ کہا۔

اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ اﷲ کی عبادت وبندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو لیکن وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے۔

پھر اس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کی بابت بتلائیے (کہ کب واقع ہوگی) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس سے یہ سوال کیا جارہا ہے وہ اس کو سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔پھر اس نے عرض کیا تو پھر مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا (اس کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ) لونڈی اپنے آقا اور ملکہ کو جنے گی اور (دوسری نشانی یہ ہے کہ) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تَن پر کپڑانہیں ہے اور جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔

حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کرکے وہ نووارد شخص چلاگیا۔ پھر مجھے کچھ عرصہ گذرگیا تو مجھ سے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا۔ میں نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ تمہاری اس مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھائیں۔ (صحیح مسلم وصحیح بخاری۔ معارف الحدیث)


 ایمان کی قبولیت

ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا دین پانچ چیزوں کا مجموعہ ہے (جو سب کی سب ضروری ہیں) ان میں کوئی بھی چیز دوسرے کے بغیر بایں معنی مقبول نہیں کہ دوزخ سے کامل نجات دلاسکے ۔ اس بات کی شہادت دینا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور اﷲ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں، کتابوں، اس کے رسولوں اور جنت دوزخ پر یقین رکھنا اور اس پر کہ مرنے کے بعد پھر (حساب وکتاب کے لئے )جی اٹھنا ہے۔ یہ ایک بات ہوئی اور پانچ نمازیں اسلام کا ستون ہیں، اﷲ تعالیٰ نماز کے بغیر ایمان بھی قبول نہیں کرے گا۔ زکوٰۃ گناہوں کا کفارہ ہے، زکوٰۃ کے بغیر اﷲ تعالیٰ ایمان اور نماز بھی قبول نہیں کرے گا۔ پھر جس نے یہ ارکان ادا کرلئے اور رمضان شریف کا مہینہ آگیا اور کسی عذر کے بغیر جان بوجھ کر اس میں روزے نہ رکھے تو اﷲ تعالیٰ نہ اس کا ایمان قبول کرے گا اور نہ نماز وزکوٰۃ۔ اور جس شخص نے یہ چار رکن ادا کرلئے اس کے بعد حج کرنے کی بھی استطاعت ہوئی (یعنی اتنا مال ہوا) پھر اس نے نہ خود حج کیا اور نہ اس کے بعد کسی دوسرے عزیز نے اس کی طرف سے حج کیا تو اس کا ایمان، نماز، زکوٰۃ اور روزے کچھ قبول نہیں، قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی رکن اسلام میں کوتاہی ہونے سے بقیہ اعمال دوزخ سے فوری نجات دلانے کے لئے کافی نہ ہوں گے۔ (الحلیہ۔ ترجمان السنہ)